Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    منگل، 25 اپریل، 2017

    اپنڈکس

    Appendix
    (اپنڈکس)
    جاندارمخلوقات، جس میں انسان بھی شامل ہے، کےجسموں میں بہت کی ایسی ساختیں بھی ہوتی ہیں جن کی افادیت کا ابھی تک پتا نہیں چل سکا اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ اب ان کا کوئی فائدہ نہیں اور یہ دراصل ایسے اعضا کی باقیات ہیں جو کسی زمانے میں کوئی فعل سرانجام دیتے تھے۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ انسان کی ریڑھ کی ہڈی کے آخر میں دمچی کے مہرے کسی زمانے میں دم کا کام کرتے تھے۔ اسی طرح کانوں کے وہ بیرونی عضلات جو بظاہراب کوئی کام سرانجام نہیں دیتے کسی زمانے میں کانوں کو حرکت دینے کے کام آتے تھے۔

    ہمارےجسم میں ہاضمے کی نلی منہ سے شروع ہو کر مقعد پر ختم ہوتی ہے۔ اس کے درمیان میں معدہ آتا ہے اور معدے کے بعد چھوٹی آنت شروع ہوتی ہے۔ اس آنت کے آخری سرے سے تقریباً دوتین انچ پیچھے ہی سے بڑی آنت شروع ہو جاتی ہے۔ یوں چھوٹی آنت کے آخری سرے کا یہ دو تین انچ لمبا ٹکڑا ایک قسم کی بند گلی ہے اسے اندھی آنت(caecum) کہتے ہیں۔ "Caecum" (سیکم) کا لفظ لاطینی زبان کے "caecus" (اندھی) سے آیا ہے ۔ اس اندھی آنت کے سرے پر تین یا چار انچ لمبی ایک اور تنگ سی نالی ہوتی ہے۔ جسے اپنڈکس (Appendix) کہتے ہیں۔ جس کے لغوی معنی ”لٹکنے والی“ ہیں۔ یہ لفظ دراصل لاطینی زبان کے "ad" اور "Pendere" (لٹکلنا) کا مجموعہ ہے۔ جسم کے کسی حصے سے لٹکنے والی ساختوں کے لیے بھی عمومی طور پر "appendices" (جمع Appendix) یا "appendages" کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ اردو میں ان کے لیے "زائدے‘‘ یا زوائد (زوائدہ کی جمع) کے الفاظ مستعمل ہیں۔ مزید برآں کسی کتاب کے آخر میں اضافے کے طور پر داخل "ضمیمے" کے لیے "appendix" کا لفظ آتا ہے۔

    یہ تنگ نالی (یہ بھی دراصل اسی طرح کی بند گلی ہے) ذرا لمبی سی اور اتنی باریک سی کہ کسی دودے یعنی کیڑے سے ملتی جلتی ہے۔ اسی وجہ سے اسے ورمی فارم اپنڈکس (زائدہ دودیہ) بھی کہا جاتا ہے vermiform دراصل لاطینی زبان کے "vermis" (کیڑا۔ دودہ) اور "forma"(کی شکل کے) کا مجموعہ ہے یعنی ایسااپنڈکس یا زائدہ جو کیڑے کی شکل کا ہو تاہم اس عضو کی شہرت کی وجہ سے اسے صرف اپنڈکس ہی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ 

    بعض پودے خور جانوروں میں یہ اندھی آنت ایک بڑے سے مال گودام کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ جہاں خوراک آ کر جمع ہوتی ہے پھر کچھ خاص قسم کے بیکٹیریا اس کے خاص اجزا کوتوڑ کر چھوٹے چھوٹے حصوں میں تبدیل کردیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اس جانور کے لیے اس خوراک کو ہضم کرنا اور جزو بدن بنانا آسان ہو جاتا ہے۔ انسان اور بن مانس میں یہ اپنڈکس (غالباً کسی دوسرے جانور میں یہ ہوتا ہی نہیں) دراصل اسی بڑی آنت ہی کی باقیات ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے انسان اور بن مانس کےقریبی آباؤاجداد یہی پودے خور جانور تھے۔ اس لحاظ سے آج کے اپنڈکس کو کسی زمانے کے ایک مفید عضو کی بے کار باقیات کہا جا سکتا ہے۔ یہ ایک vestige یعنی "نقش" ہے vestige کا لفظ لاطینی لفظ "vestigium" (نقش پا) سے ہے۔ جس طرح کسی راستے سے ایک دفعہ گزرتے ہوئے کسی آدمی کے نقش پا(پاؤں کے نشان) اس آدمی کی علامت تصور ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ نقش اس مفید عضو کی باقی رہ جانے والی ایک علامت ہے جو کسی زمانے میں اس مقام پر تھا۔

    کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ اپنڈکس صرف بے مصرف ہی نہیں رہتا بلکہ ایک ضرررساں شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ سوج کر سرخ ہو جاتا ہے تب اسے کاٹ کر الگ کردینا ضروری ہو جاتا ہے۔ ورنہ مریض کوشدید تکلیف ہوتی ہے حتی کہ اسی کے باعث وہ ہلاک بھی ہو سکتا ہے۔ مرض کی اس حالت کو ورم زائدہ ( appendicitis) کہتے ہیں۔ Appendicitis کی اصطلاح میں بھی "itis-" کا لاحقہ یونانی زبان سے آیا ہے اور اس کے معنی” ورم آجانا یا سوج کر سرخ ہوجانا“ ہے۔ تکلیف کی صورت میں اپنڈکس کے کاٹنے کے عمل کو زائدہ براری (Appendectomy) کہا جاتا ہے۔" اس کی انگریزی اصطلاح میں "-ectomy" کا لاحقہ یونانی زبان کے "-ektome" سے آیا ہے اس کے معنی" کاٹنا" یا’’قطع‘‘ کرنا ہے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: اپنڈکس Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top