Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    اتوار، 30 اپریل، 2017

    آرنو پنزیاس - نوبل انعام یافتہ

    تخلیق کی گونج

    آرنو پنزیاس میونخ کے ایک یہودی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ 1933ء میں اسی دن (26 اپریل) کو پیدا ہوا جب گسٹاپو (جرمن کی خفیہ پولیس) قائم ہوئی تھی۔ 1939ء میں اس کا خاندان نازی جرمن سے ہجرت کر کے انگلستان آنے والوں میں سب سے آخری تھا - آرنو اور اس کے بھائی کو موسم بہار میں بھیج دیا تھا اور بعد میں اس کے والد اور آخر میں والدہ وہاں سے نکل آئیں تھیں۔ جمع ہوئے خاندان نے انگلستان تو 1939ء میں چھوڑ کر نیو یارک کی طرف سفر رخصت باندھا جہاں پر وہ جنوری 1940ء کو پہنچے اور پھر وہیں قیام کیا۔ اس غریب الوطن اور غریب خاندان کے بیٹے کو تعلیم نے ایک ایسا موقع دیا کہ وہ دنیا میں اپنا نام بنا سکے، 1954ء میں پنزیاس نے نیو یارک کے سٹی کالج سے طبیعیات میں سند حاصل کی۔ آرمی سگنل کورپس میں دو برس گزارنے کے بعد اس نے کولمبیا یونیورسٹی میں بطور سند یافتہ طالبعلم کے داخلہ لیا جہاں 1962ء میں اس نے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ 

    پنزیاس نے کولمبیا میں چارلس ٹاؤنز کے ساتھ کام کیا، وہ طبیعیات دان جس نے میزر اور لیزر کو بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور جس کو اپنی ان کوششوں کا صلہ 1964ء میں نوبل انعام کی صورت میں ملا۔ ایک میزر کو کمزور ریڈیائی اخراج کا سراغ لگانے کے لئے بطور افزوں نظام کے استعمال کیا جا سکتا ہے، اور پنزیاس نے ایک میزر وصول کنندہ 21 سینٹی میٹر طول موج پر کام کرنے کے لئے بنایا۔ وہ وہ قدرتی طول موج ہے جس پر ہائیڈروجن اشعاع بکھیرتی ہے اور پنزیاس کو امید تھی کہ وہ بین النجم ہائیڈروجن کے 21 سینٹی میٹر کے 'خط' کا سراغ لگا لے گا۔ تاہم اس کو ناکامی اس لئے ہوئی کیونکہ مشاہدہ کرنے کے لئے کوئی بین النجم ہائیڈروجن موجود ہی نہیں تھی، اور صرف وہ یہ کر سکا کہ کہکشاؤں کے درمیان موجود ہونے والی ہائیڈروجن کی زیادہ سے زیادہ حد کو مقرر کر سکے۔ اس طرح کی ناکامی ڈاکٹریٹ حاصل کرنے والے طالبعلموں میں بلکہ دوسرے منصوبوں میں بھی شاذ نہیں ہوتی، اور واضح طور پر کولمبیا کے ممتحن اس بات سے خوش تھے کہ پنزیاس نے اپنا کام موثر طریقے سے کیا اگرچہ اس کے نتائج منفی ہی حاصل ہوئے۔ تاہم اس نے اپنے اس کام کا سختی سے جائزہ لیا۔ جیسا کہ اس نے صفر سے تین درجے اوپر کے مصنف جیریمی برنسٹین کو بتایا، ' میں بڑی مشکل سے کولمبیا سے گزرا، یہ ایک لرزہ خیز تحقیقی مشق تھی۔ 'یہ لرزہ خیز مقالہ تھا یا نہیں، ٹاؤنز کے ساتھ تعلق اور ریڈیائی فلکیات میں اس کی پہلی کوشش نے پنزیاس کی باقی زندگی پر زبردست اثر ڈالا۔ 

    ٹاؤنز 1948ء میں کولمبیا یونیورسٹی سے بیل لیبز میں چلا گیا۔ بیل لیبز اصل میں بیل ٹیلی فون کمپنی کا تحقیقاتی شعبہ تھا جو بعد میں اے ٹی اینڈ ٹی میں ضم ہو گیا، اور حالیہ دور میں اجارہ داری قانون کی زد میں آخر اس جماعت کے ٹکڑے ہو گئے جس سے بیل لیبز کے بطور تحقیقی مرکز کے کردار جاری رکھنے پر غیر یقینیت کی کیفیت چھائی ہوئی ہے۔ اس کی جو بھی قسمت ہو، بیل کی پاس قابل فخر تحقیق کی تاریخ ہے، بشمول خلاء سے آنے والی پہلی ریڈیائی شور کو کارل جانکسی کے ذریعہ دریافت ہونے کی، جو بیل کے محقق اور ریڈیائی فلکیات کے 1930ء کے عشرے میں بانی تھے۔ بیل لیبز کے ساتھ ٹاؤنز کے مسلسل رابطے کی وجہ سے 1961ء میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے کے تھوڑے عرصے بعد ہی پنزیاس ہولمڈل کے قریب کراوفورڈ ہل میں واقع ان کی ریڈیائی تحقیقی تجربہ گاہ میں چلا آیا۔ اگرچہ بنیادی طور پر عملی تحقیق کا مقصد مورث کمپنی کو فائدہ پہنچانا تھا، تاہم بیل لیبز نے ایک علمی تحقیق کی بھی ایک روایت قائم کر رکھی تھی، اسی وجہ سے اول درجے کے سائنس دان اس جماعت میں شامل ہونے کے لئے مشتاق رہتے تھے، اور یہی چیز بیل لیبز کو عملی میدان میں علمی جامعات اور تعلیمی اداروں سے نکلنے والی نئی پیش رفت سے جوڑے رکھتی تھی۔ پنزیاس نے پہلے پہل ایکو اور ٹیلسٹار سیارچوں کو استعمال کر کے ان مسائل پر کام کیا جو اس نظام سے جڑے ہوئے تھے جن کو مصنوعی سیارچوں کے مواصلاتی رابطوں کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد اس کو ریڈیائی فلکیات پر کام کرنے کی اجازت ملی، کراوفورڈ ہل میں ایک اور بننے والے ریڈیائی فلکیات دان رابرٹ ولسن سے اس کی دوری تھوڑی ہی رہ گئی تھی۔ ایک ریڈیائی فلکیات کی جگہ پر کام کرنے کی اجازت ملی، لہٰذا پنزیاس اور ولسن نے اس کو آدھا آدھا بانٹ لیا، ان میں سے ہر ایک آدھے وقت ریڈیائی فلکیات کو دیتا اور آدھا دوسرے منصوبوں کو۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: آرنو پنزیاس - نوبل انعام یافتہ Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top