Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    اتوار، 23 اپریل، 2017

    فریڈ ہوئیل


    ہوئیل نے اپنی بیرونی وضع قطع ایک ایسے انوکھے کردار کے طور پر بنائی ہوئی تھی جس کی بیوقوف بننے کی ہچکچاہٹ نے اس کو محکمہ میں منظور نظر نہیں بنایا تھا اور اسی وجہ سے اس کو 1973ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے اپنی نوکری سے قبل از وقت فارغ صرف اٹھاون برس کی عمر میں ہونا پڑا۔ سچ تو یہ ہے، وہ بنیادی طور پر شرمیلا اور درون کشف تھا جو اپنے کام کے لئے جیتا تھا اور اس نے اپنی ذات کو ایسا طاقتور بنا لیا تھا جو اپنے خیالات و افکار کی اہمیت کو دوسروں تک واضح طور پر پہنچا سکتا تھا۔ وہ یارکشائر میں بینگلی میں پیدا ہوا، اور کبھی کبار اپنے دشمنوں کو جتاتا کہ اس کی ' یارکشائر کی منہ پھٹ خاصیت' بہت احتیاط سے بنائی گئی ہے - جس کو اکثر دوسرے لفظوں میں ایسا منہ پھٹ گستاخ سمجھا جاتا تھا جس کو شمالی لوگوں کی روایتی صاف دلی کے طور پر قابل معافی گردانہ جاتا تھا۔ تاہم واضح طور پر اس کو برطانوی سائنسی محکمہ کی ناکامی بالخصوص اس کے کام اور تصورات کو سمجھنے میں ناکامی پر کہ سائنس کو کس طرح سے چلانا چاہئے، زخم لگا تھا۔ اگر وہ واقعی موٹی کھال کا اور غیر حساس ہوتا جیسا کہ اس کی شخصیت سے ظاہر ہوتا ہے تو وہ لازمی طور پر کیمبرج میں لمبے عرصہ لڑ کر گزارتا۔ 

    اس کی ابتدائی زندگی اگرچہ روایتی خطوط پر ہی چلی تھی جس میں اس نے مقامی گرامر اسکول سے کیمبرج کے ایمانیول کالج تک سفر کیا اور اس کے بعد وہ سینٹ جان کالج کا 1945ء میں رکن بنا۔ 1958ء میں وہ پلمین پروفیسر بن گیا اور وہ 1967ء میں کیمبرج میں بننے والے انسٹیٹیوٹ آف تھیوریٹیکل ایسٹرونامی کو بنانے کے پیچھے بھی تھا اور اس کا پہلا ناظم بھی وہی بنا۔ تاہم وہ اس کے محکمہ کے عروج کا دور تھا، اگرچہ ہوئیل نے کافی بڑی سطح کی کمیٹیوں میں بھی خدمات انجام دیں (اس دوران اس نے اتنا وقت بھی ڈھونڈ نکالا کہ سائنسی حقیقت اور سائنسی قصوں پر مقبول کتابوں کو لکھ سکے ) اور رائل سوسائٹی کا رکن بھی منتخب ہوا اور اس کو سرداری کا بھی خطاب ملا، کیمبرج میں وہ حکام کے ساتھ یونیورسٹی کے اندر فلکیاتی تحقیق کے کردار اور اس میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں الجھ گیا، وہ شدت کے ساتھ برطانوی سائنس منتظمین کے ساتھ اس بارے میں غیر متفق ہوا کہ کس طرح سے سائنس کو بحیثیت مجموعی پیسے دے کر چلانا چاہئے، اور 1970ء اور 1980ء کے عشروں میں ائنات میں حیات کے ماخذ کے بارے میں اس کے خیالات نے اس کے کافی سائنسی رفقائے کاروں کی مخالفت مول لی اس کے ان خیالات و افکار کو بہت سے لوگوں نے پاگل پن سمجھا۔ تاہم اس میں سے کسی بھی چیز نے نہ ہی ساکن حالت کی کائنات کے بارے میں دوسرے فلکیات دانوں کی رائے نے نہ ہی ہوئیل کے کائنات کی ماہیت کے دوسرے وسیع خیالات کے بارے میں اس کے اہم کردار کو پس پشت نہیں ڈالا جو اس نے ستاروں کے اندر عناصر کو پکنے کی دریافت کے سلسلے میں کیا تھا۔ 

    فلکیات دانوں کے لئے بڑا مسئلہ بگ بینگ میں دلچسپی نہ لینا یا کائنات کے ساکن حالت کے نمونے نہیں بنے بلکہ ان کے نجمی طیف کے بہتر ہوتے ہوئے مشاہدات نے 1940ء اور 1950ء کے عشرے میں بتایا کہ مختلف ستاروں کے اندر مختلف عناصر کی مقدار موجود ہوتی ہے۔ آپ قیاس آرائی کر سکتے ہیں کہ وہ مادّہ جس سے ستارے بنے ہیں وہ بگ بینگ سے آیا یا آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ مادّہ جس سے نئے ستارے بن رہے ہیں وہ مسلسل کہکشاؤں کے درمیان خلاء میں بن رہا ہے۔ تاہم جب آپ کی یہ معلوم ہوتا ہے کہ ستاروں کے اندر کی ترکیب میں ایک ترتیب میں فرق ہے جس میں کچھ ستاروں میں بھاری عناصر دوسروں کی نسبت ہوتے ہیں تو آپ کو اس بات پر سوچنے لگتے ہیں کہ یہ عناصر قدیمی مادّے سے (وہ جو بھی ہو) خود ستاروں کے اندر ہی بنے ہوں گے۔ 

    ہوئیل کے 1946ءمیں پیش کیے جانے والے مقالے نے پہلی مرتبہ نجمی ساخت کے قابل قبول فریم ورک کے اندر نیوکلیائی تالیف کے بنیادی خیال کی واضح تشریح اور ارتقاء کو بہترین دستیاب نیوکلیائی تعاملات کی شرح کی، قاطع حصّوں اور اسی طرح کی معلومات سے کی۔ جیسا کہ گیمو کی ٹیم نے بگ بینگ میں ہیلیئم سے بھاری عناصر کو بننے کے راستے کو ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی اسی طرح ہوئیل نے ان کو ستاروں کے اندر بنانے کی کوشش کی اور پہلی مرتبہ کالٹک کا 1953ء میں دورہ کیا اور جلد ہی فولر کے ساتھ مل گیا۔ اہم مسئلہ یہ تھا کہ کس طرح سے بوران-8 کے مرکزے کی غیر پائیداری کو پاس کیا جائے۔ ایسا کرنے کا واحد راستہ تہرا تصادم تھا جس میں تین الفا ذرّات ایک ساتھ ٹکرا کر کاربن-12 کا مرکزہ بناتے۔ گیمو اس کو بگ بینگ میں نہیں کر سکتا تھا کیونکہ تخلیق کے چند لمحوں بعد ہی مادّہ کائنات میں بہت مہین طور پر پھیل گیا تھا اور درجہ حرارت اس طرح کے تصادموں کے وقوع پذیر ہونے کے لئے کافی کم تھا جس سے آج کائنات میں نظر آنے والے ان بھاری عناصر کی مقدار بن سکتی جن کو ہم دیکھتے ہیں۔ ستاروں کے اندر بہرحال دونوں گرم اور کثیف ماحول موجود ہوتا ہے اور ستاروں کے اندر یہ کروڑوں برسوں تک گرم و کثیف رہ سکتا ہے جس سے شاذونادر ہونے والے تہرے تصادم کے ہونے کے امکان کو بہتر موقع مل سکتا ہے جو اس قدر ہو سکتے ہیں کہ اس میں کاربن کی کافی مقدار بن سکے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: فریڈ ہوئیل Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top