Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعرات، 2 جون، 2016

    معیاری نمونے کا استنباط



    اگرچہ فوق تشاکل کے کوئی حسب ضابطہ پیرامیٹر نہیں ہیں، اسٹرنگ نظریہ وہ حل پیش کرتا ہے جو حیرت انگیز طور پر معیاری نمونے کے قریب ہیں۔ ان تمام رنگا رنگ عجیب ذیلی جوہری ذرّات کے مجموعہ اور انیس پیرامیٹر (مثلاً ذرّات کی کمیت اور ان کے جفتی قوّت) کے ساتھ۔ مزید براں ، معیاری نمونے میں تین ایک جیسے اور اضافی نقول تمام کوارک اور لیپٹون کی موجود ہیں جو بالکل ہی غیر ضروری ہیں۔ خوش قسمتی سے اسٹرنگ نظریہ معیاری نمونے کی کافی مقداری خصوصیات کو بغیر کسی مشقت کے بیان کر سکتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ عدم سے کسی چیز کو حاصل کر لیں۔ ١٩٨٤ءمیں یونیورسٹی آف ٹیکساس کے فلپ کنڈلاس ، یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، سانتا باربرا کے گیری ہوروویٹز اور اینڈریو اسٹرومنگر اور ایڈورڈ ویٹن نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ اگر آپ اسٹرنگ نظرئیے کی دس جہتوں میں سے چھ کو موڑ دیں اور اس کے باوجود بھی باقی بچ جانے والی چار جہتوں میں فوق تشاکل کو برقرار رکھی، تو ننھی چھ جہتی دنیا کو ریاضیاتی زبان میں کثیر الجہت کیلیبی یو سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ کیلیبی یو خلاء سے چند سادہ مفروضے لے کر انہوں نے اس بات کو ثابت کیا کہ اسٹرنگ کو توڑ کر ایک ایسے نظریہ میں بیان کیا جا سکتا ہے جو حیرت انگیز طور پر معیاری نمونے سے قریب تر ہے۔ 

    اس طرح سے اسٹرنگ نظرئیے نے ہمیں اس سوال کا سادہ سا جواب دے دیا کہ آیا کیوں معیاری نمونے میں تین اضافی نسلیں موجود ہیں۔ اسٹرنگ کے نظرئیے میں نسلوں کی تعدد یا کوارک کے نمونوں میں فالتو چیزیں ان "شگافوں" کے اعداد کی نسبت رکھتے ہیں جو ہمیں کثیر الجہت کیلیبی یو میں ملتے ہیں۔(مثال کے طور پر ایک ڈونٹ، ایک اندرونی نلکی اور ایک کافی کے پیالے کی سطح پر صرف ایک ہی سوراخ ہوتا ہے۔ عینک کے عدسوں میں دو سوراخ ہوتے ہیں۔ کیلیبی یو سطح پر اپنی مرضی کے سوراخ ہو سکتے ہیں ۔) لہٰذا صرف کسی کثیر الجہت کیلیبی یو کو پسند کرکے جس میں کافی سارے شگاف ہوں ، ہم معیاری نمونے کو بنا سکتے ہیں جس میں فالتو کوارک کی مختلف نسلیں ہو سکتی ہیں۔ (ہم کیلیبی یو خلاء کو کبھی نہیں دیکھ سکتے کیونکہ وہ بہت ہی چھوٹی ہوتی ہے، لہٰذا ہم یہ بھی نہیں دیکھ سکتے کہ اس خلاء میں ڈونٹ کی شکل کے شگاف ہوتے ہیں۔) گزرے برسوں کے دوران طبیعیات دانوں کی جماعتیں جب انتہائی جفا کشی کے ساتھ تمام ممکنہ کیلیبی یو خلاء کو ترتیب دے رہے تھے اس وقت انھیں اس بات کا اندازہ ہوا کہ چھ جہتوں کی مقامیات ہماری چار جہتوں کی کائنات میں موجود کوارک اور لیپٹون کا تعین کرتے ہیں۔ 


    ایم نظریہ 


    اسٹرنگ نظریہ کے گرد موجود سنسنی ١٩٨٤ء میں دوبارہ ابھری لیکن زیادہ دیر تک جاری نہیں رہ سکی۔ ١٩٩٠ء کی دہائی کے وسط میں سپر اسٹرنگ کی سواری طبیعیات دانوں کی دلچسپی کو بتدریج کھو رہی تھی۔ نظرئیے میں موجود آسان مسائل سے چھٹکارا حاصل ہو گیا تھا اب صرف مشکل مسائل ہی باقی بچے تھے۔ ایک مسئلہ یہ تھا کہ اسٹرنگ نظریہ کے ارب ہا حل دریافت کئے جا رہے تھے۔ عمل بستگی یا مکان و زمان کو مختلف طریقے سے موڑ کر اسٹرنگ کے حل کو صرف چار جہتوں کے بجائے کسی بھی جہت میں لکھا جا سکتا ہے۔ ارب ہا اسٹرنگ کے حل میں سے ہر ایک ریاضیاتی طور پر خود کفیل کائنات کے مطابق ہو سکتا ہے۔ 

    طبیعیات دان اچانک ہی اسٹرنگ نظرئیے کے حل میں ڈوبنے لگے۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کائناتیں ہماری کائنات جیسی لگتی ہیں۔ کیلیبی یو خلاء کے مناسب چناؤ کے ساتھ یہ کافی آسان ہے کہ معیاری نمونے کے خام خواص کو اس کے عجیب مجموعہ کوارک اور لیپٹون بلکہ پر تجسس فالتو نقول کو معیاری نمونے کی نسبت آسانی سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال یہ بہت ہی مشکل ہے ( اور اب تک ایسا ہی ہے ) کہ اس کے ذریعہ معیاری نمونے کو اس کے انیس پیرامیٹر کی مخصوص مقداروں کے ساتھ اور تین فالتو نسلوں کے ساتھ ہو بہو بیان کیا جا سکے۔ (یہ پریشان کر دینے والے اسٹرنگ حل کی تعداد کو ان طبیعیات دانوں نے خوش آمدید کہا ہے جو کثیر کائناتوں کے تصوّر پر یقین رکھتے ہیں۔ کیونکہ اس میں سے ہر ایک حل ایک خود کفیل متوازی کائنات کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن یہ بہت ہی حوصلہ شکن بات ہے کہ ہمارے طبیعیات دانوں کو اپنی کائنات ان کثیر کائناتوں کے جنگل میں نہیں مل رہی ہے۔) 

    اس کے مشکل ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمیں فوق تشاکل کو توڑنا ہوگا، کیونکہ ہم فوق تشاکل کو اپنی کم توانائی والی دنیا میں نہیں دیکھتے۔ مثلاً قدرتی طور پر سلیکٹران یعنی کہ الیکٹران کے فوق ساتھی نظر نہیں آتے۔ اگر فوق تشاکل کو توڑا نہ جائے تو ہر ذرّے کی کمیت اس کے فوق ذرّے کے برابر ہوگی۔ طبیعیات دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ فوق تشاکل ٹوٹ گیا ہے ان نتائج کے ساتھ جس میں فوق ذرّات کی کمیتیں بہت زیادہ ہیں اس سے بھی زیادہ جو ہمارے ذرّاتی اسراع گر پیدا کر سکتے ہیں ۔ لیکن سر دست ابھی تک کوئی بھی فوق تشاکل کو توڑنے کے لئے کسی قابل قدر طریقے کو پیش نہیں کر سکا ہے۔ 

    کاولی انسٹیٹیوٹ فار تھیوریٹیکل فزکس ، سانتا باربرا کے ڈیوڈ گروس تبصرہ کرتے ہیں کہ اسٹرنگ نظرئیے کے تین مکانی جہتوں میں کروڑ ہا کروڑ حل موجود ہیں، جو بہت زیادہ ہیں کیونکہ کوئی بھی ایسا طریقہ موجود نہیں ہے جس میں ہم ان حل میں سے کوئی مناسب حل کو چن سکیں۔ 

    اس کے علاوہ بھی دوسرے پریشان کر دینے والے سوالات اپنی جگہ موجود ہیں ۔ ایک سب سے پریشان کن امر یہ ہے کہ اسٹرنگ کے پانچ خود مختار نظریات موجود ہیں۔ اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ کائنات پانچ مختلف وحدتی نظریات کو برداشت کرتی ہوگی۔ آئن سٹائن سمجھتا تھا کہ کائنات کو تخلیق کرتے وقت خدا کے پاس زیادہ چناؤ کے موقع نہیں تھے، تو پھر ایسا کیوں کہ ہے کہ خدا نے پانچ کو تخلیق کیا؟ 

    اصل نظریہ کی بنیاد وینزیانو کے کلیہ پر رکھی ہوئی ہے جس کو سپر اسٹرنگ نظریہ قسم اوّل کہا جاتا ہے۔ قسم اوّل نظریہ کی بنیاد دونوں قسم کے تاروں یعنی کہ کھلے ہوئے تاروں ( تار جن کے دو کونے ہوتے ہیں ) اور بند تاروں (دائروی تار) پر ہے۔ یہ وہ نظریہ ہے جس پر سب سے زیادہ تحقیق ١٩٧٠ء کی دہائی میں ہوئی ہے۔ (اسٹرنگ میدانی نظرئیے کا استعمال کرتے ہوئے، کیکاوا اور میں اس قابل ہو گئے تھے قسم اوّل کے تعاملات کا ایک مکمل سیٹ بنا سکیں۔ ہم نے اس بات کا مظاہرہ بھی کیا کہ اسٹرنگ کی قسم اوّل کو پانچ قسم کے تعاملات کی ضرورت ہوتی ہے؛ بند تاروں ( دائروی تاروں)کے لئے ہم نے بتایا کہ صرف ایک ہی تعامل کی شرط ضروری ہے۔) 

    کیکاوا اور میں نے اس بات کا بھی مظاہرہ کیا کہ ممکنہ طور پر خود کفیل نظریات کو صرف ایک بند تار سے بھی بنایا جا سکتا ہے ( جو ایک حلقے کی طرح کے ہوں گے )۔ آج اس کو ہم قسم دوم کی اسٹرنگ نظریات کے نام سے جانتے ہیں جہاں تاروں کے تعاملات کو ایک دائروی تار میں چبھا کر دو چھوٹے تاروں سے کروایا جاتا ہے۔ (جو خلیہ کی خطیت کے مشابہ ہوتا ہے )۔ 

    سب سے حقیقی اسٹرنگ نظریہ دگر جفتی اسٹرنگ کہلاتا ہے ، جس کی تشکیل پرنسٹن گروپ نے کی ہے (اس گروپ میں ڈیوڈ گروس، ایمل مارٹنیک، ریان روہم اور جیفری ہاروے شامل تھے ) دگر جفتی اسٹرنگ متاشکل جماعت جس کوE(8).E(8)کہتے ہیں یہ اس سے بھی مطابقت رکھ سکتی ہے ۔ E(8).E(8)یا O(32) اتنے بڑے ہیں کہ عظیم وحدتی نظریہ کو نگل سکتے ہیں۔ دگر جفتی نظرئیے کی بنیاد مکمل طور پر بند تاروں پر رکھی ہوئی ہے۔ ١٩٨٠ء اور ١٩٩٠ء کی دہائی میں جب سائنس دان سپر اسٹرنگ کی بات کرتے تھے تو اصل میں وہ دگر جفتی اسٹرنگ کی جانب اشارہ کر رہے ہوتے تھے کیونکہ اس میں اتنی قابلیت تھی کہ اس کے ذریعہ سے کوئی بھی معیاری نمونہ اور عظیم وحدتی نظرئیے کی جانچ کر سکتا تھا۔ مثال کے طور پر متشاکل جماعت E(8).E(8) کو E(8) میں ، E(6) میں توڑا جا سکتا ہے جو اتنی بڑی ہوتی ہیں کہ اس میں معیاری نمونے کے تشاکل SU(3).SU(2).U(1) بھی شامل ہوتے ہیں۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: معیاری نمونے کا استنباط Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top