Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    اتوار، 12 جون، 2016

    بلیک ہولز اور اطلاع کا تناقض




    اسٹرنگ نظریہ ممکن ہے کہ کچھ بلیک ہولز کے گہرے تناقضات پر کچھ روشنی ڈال سکے مثلاً اطلاع کا تناقض ۔ جیسا کہ آپ کو یاد ہوگا کہ بلیک ہولز مکمل طور پر کالے نہیں ہوتے بلکہ سرنگ کے ذریعہ تھوڑی سی اشعاع کو خارج کرتے ہیں۔ کوانٹم نظریئے کی وجہ سے ہمیشہ اس بات کا امکان رہے گا کہ اشعاع کو بلیک ہول کی قوّت ثقل کے شکنجے سے فرار کا موقع ملے۔ اس وجہ سے بلیک ہول سے اشعاع آہستہ آہستہ رسیں گی جس کو "ہاکنگ کی اشعاع" کہا جاتا ہے۔

    ان اشعاع کا ایک مخصوص درجہ حرارت ہوتا ہے (جو کہ بلیک ہول کے واقعاتی افق کی نسبت ہوتا ہے)۔ ہاکنگ نے اس مساوات کا عمومی استنباط کیا ہے جس میں ہاتھ سے کافی کام کرنا پڑتا ہے۔ بہرحال ایک سخت محنت والا استنباطی نتیجہ اس بات کا متقاضی ہے کہ شماریاتی میکانیات کی بھرپور طاقت کا استعمال کیا جائے۔ (اس کی بنیاد بلیک ہول کی کوانٹم کی شماری حالت پر ہے )۔ عام طور پر شماریاتی مکانیکی حسابات ان حالتوں کا شمار کرکے حاصل کئے جاتے ہیں جو ایک جوہر یا سالمہ رکھتا ہے۔ لیکن آپ کس طرح سے بلیک ہول کی حالتوں کو شمار کریں گے؟ آئن سٹائن کے نظریئے میں بلیک ہول مکمل طور پر ہموار ہوتے ہیں، لہٰذا کوانٹم کی حالت کا شمار کرنا مشکل ہوگا۔

    اسٹرنگ نظری اس خلاء کو پر کرنے کے لئے کافی پرامید ہیں، لہٰذا ہارورڈ کے اینڈریو اسٹرومنگر اور کمرم وافا نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ ایم نظریئے کا استعمال کرتے ہوئے بلیک ہول کا تجزیہ کیا جائے۔ کیونکہ بلیک ہول بذات خود کام کرنے کے لئے ایک انتہائی مشکل جسم ہے ، لہٰذا انہوں نے ایک مختلف ترکیب کا استعمال کیا اور ایک عیارانہ سوال پوچھا۔ بلیک ہول کی ثنویت کیا ہے؟ (ہم یاد دلاتے چلیں کہ الیکٹران کی ثنویت ایک یک قطبی مقناطیس مثلاً ایک شمالی قطب والا مقناطیس ہے۔ لہٰذا الیکٹران کا کمزور برقی میدان میں تجزیہ جو آسانی سے ہو جاتا ہے کرکے ہم مزید کافی مشکل تجربات کو کر سکتے ہیں ۔ مثلاً ایک یک قطبی کو بڑے مقناطیسی میدان میں رکھیں۔ امید تو ہے کہ بلیک ہول کے ساتھی کا تجزیہ کرنا خود بلیک ہول کے تجزیہ کرنے سے آسان ہوگا بہرحال دونوں کے نتائج ایک جیسے ہی ہوں گے۔ ریاضیاتی توڑ جوڑ کے سلسلے کے بعد اسٹرومنگر اور وافا اس بات کا مظاہرہ کرنے کے قابل ہو گئے کہ بلیک ہول ایک برین اور پانچ برین کے مجموعہ کا جڑواں ہے۔ یہ ایک شاندار کامیابی تھی، کیونکہ ان برین کی حالت کی تعداد کا شمار معلوم تھا۔ جب اسٹرومنگر اور وافا نے کوانٹم کی حالتوں کا شمار کیا تو انھیں بالکل درست طور پر ہاکنگ کے نتائج حاصل ہوئے۔

    یہ ایک بہت ہی اچھی خبر تھی۔ اسٹرنگ نظریہ جس کو اکثر اوقات یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ یہ کسی طور پر حقیقی دنیا سے جڑا نظر نہیں آتا، شاید ہمیں بلیک ہولز کے حر حرکیات کا سب سے نفیس حل فراہم کر دے۔ 

    اب اسٹرنگ نظری بلیک ہول کی طبیعیات کے سب سے مشکل مسئلے سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کر رہے ہیں یعنی کہ "اطلاعاتی تناقض"۔ ہاکنگ کہتا ہے کہ اگر آپ کوئی چیز بلیک ہول میں پھینکیں گے تو اس میں موجود اطلاع ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی اور وہ دوبارہ کبھی حاصل نہیں کی جا سکے گی۔(یہ کسی بھی جرم کرنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے۔ کوئی بھی مجرم بلیک ہول کو تمام گناہوں کے ثبوتوں کو مٹانے کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔ فاصلے پر رہتے ہوئے ہم صرف جو چیز بلیک ہول کی ناپ سکتے ہیں وہ اس کی کمیت ، گھماؤ اور بار ہے۔ اس بات سے کچھ فرق نہیں پڑے گا کہ آپ نے بلیک ہول میں کیا چیز ڈالی ہے جو بھی چیز ڈالی جائے گی وہ تمام اطلاعات کو ضائع کر دے گی۔ (اس بات کو یوں بھی کہا جاتا ہے کہ "بلیک ہولز کے بال نہیں ہیں" یعنی یہ تمام اطلاع تمام بالوں کو ضائع کر دیتے ہیں بجز ان تین چیزوں کے۔)

    ہماری کائنات سے اطلاع کا ضائع ہونا آئن سٹائن کے نظریئے کی رو سے بھی لامحالہ بات ہے ، لیکن یہ کوانٹم میکانیات کے اصول کی صریحاً خلاف ورزی ہے جو کہتا ہے کہ اطلاع کبھی بھی ضائع نہیں ہوگی۔ کائنات میں کہیں اطلاع ضرور تیر رہی ہوگی یہ بات اس وقت بھی درست ہوگی جب اطلاع کا اصل ماخذ بھی بلیک ہول میں ڈال دیا جائے گا۔

    "زیادہ تر طبیعیات دان اس پر یقین رکھنا چاہتے ہیں کہ اطلاع ضائع نہ ہو۔" ہاکنگ نے لکھا، " کیونکہ اس طرح سے دنیا محفوظ اور قابل پیش بین ہو جائے گی۔ لیکن میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی آئن سٹائن ک عمومی اضافیت کا نظریئے سنجیدگی کے ساتھ لے تو اسے اس امکان کی اجازت دینی ہوگی کہ مکان و زمان خود سے ایک گراہ میں بند ہے اور اطلاع اس گراہ میں غائب ہو گئی ہے۔ اس بات کا تعین کرنا کہ اصل میں اطلاع ضائع ہو گئی ہے یا نہیں یہ عصر حاضر کی نظری طبیعیات کا اہم سوال ہے۔"

    یہ وہ تناقض ہے جس نے اسٹرنگ نظریات کے خلاف ہاکنگ کو موقع فراہم کیا ہے یہ اصل میں اب بھی حل طلب ہے۔ لیکن اسٹرنگ نظریاتی اب بھی اس بات پر شرط لگاتے ہیں کہ وہ بالآخر اس بات کا سراغ لگا لیں گے کہ غائب شدہ اطلاع آخر جاتی کہاں ہے۔ (مثال کے طور پر، اگر آپ ایک کتاب کو بلیک ہول میں پھینکیں گے، یہ بات قابل فہم ہے کہ اس کتاب میں موجود اطلاع آہستگی کے ساتھ واپس کائنات میں ننھی ارتعاش کی شکل میں جو ہاکنگ کی اشعاع کی صورت میں بلیک ہول کو تحلیل کر رہی ہوں گی نکل آئیں گی۔ یا شاید یہ بلیک ہول کے دوسری طرف موجود سفید شگاف میں سے نکل آئے گی۔) یہی وجہ ہے کہ میں ذاتی طور پر اس بات کو سمجھتا ہوں کہ جب کوئی حتمی طور پر حساب لگاتا ہے کہ اسٹرنگ نظریئے میں اس وقت کیا ہوگا جب اطلاع بلیک ہول میں غائب ہو جائے گی، تو اصل میں اسے معلوم ہوگا کہ اطلاع در حقیقت غائب نہیں ہوئی بلکہ لطیف طور پر کسی دوسری جگہ ظاہر ہو گئی ہے۔

    ٢٠٠٤ء میں ایک انگشت بدنداں کر دینے والا واقعہ اس وقت نمودار ہوا جب ہاکنگ نے نیویارک ٹائمز کے صفحہ اوّل اور ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے اس بات کا اعلان کیا کہ وہ اطلاعاتی مسئلہ کے موضوع پر غلط تھا۔ (تئیس برس قبل اس نے دوسرے طبیعیات دانوں سے شرط لگائی تھی کہ اطلاع کبھی بھی بلیک ہول سے نہیں نکل سکتی۔ شرط ہارنے والے کو جیتنے والے کو ایک انسائیکلوپیڈیا دینا تھا جس میں سے معلومات کو آسانی کے ساتھ حاصل کیا جا سکتا ہو۔) اپنے شروع کے ریاضیاتی حساب کتاب کو دوبارہ سے کرنے کے بعد اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ اگر کوئی چیز جیسا کہ کتاب بلیک ہول میں گرتی ہے تو یہ اس سے خارج ہونے والی اشعاع کے میدان میں گڑبڑ پیدا کر دے گی، اور یوں اطلاع واپس کائنات میں نکل جائے گی۔ کتاب کے اندر موجود معلومات اشعاع کی صورت میں رمز بند ہو کر آہستہ سے بلیک ہول سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر رسے گی۔ 

    ایک طرح اس اعلان نے ہاکنگ کو کوانٹم طبیعیات دانوں کے جم غفیر میں شامل کر دیا جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اطلاع غائب نہیں ہو سکتی۔ لیکن اسی بات نے ایک سوال کو بھی اٹھا دیا ہے کہ آیا کیا اطلاع متوازی کائنات میں بھیجی جا سکتی ہے۔

    بہرحال کسی کو بھی یقین نہیں ہے کہ یہ اس موضوع پر کوئی حتمی رائے ہے۔ تاآنکہ اسٹرنگ نظریہ مکمل طور پر نہیں بن جاتا اس وقت تک کوئی بھی یقین نہیں کرے گا کہ اطلاع کا تناقض مکمل طور پر حل ہو گیا ہے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: بلیک ہولز اور اطلاع کا تناقض Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top