Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    منگل، 28 جون، 2016

    خلق کردہ کائنات؟ - حصّہ اوّل

    آٹھواں باب 


    ابد سے متعدد کائناتیں اناڑی پن سے بنائی جا رہی ہوں گی، اس سے پہلے کہ یہ نظام بند ہوتا کافی محنت ضائع ہو گئی، کافی بے ثمر کوششیں کی گئی ہوں گی، اور ایک سست لیکن ہمہ وقت بہتری لامحدود دور میں دنیا کو بنانے میں کی گئی ہو گی۔

    ڈیوڈ ہیوم 


    جب میں دوسری جماعت میں پڑھنے والا بچہ تھا، میری معلمہ نے ایک ایسی بات کہہ دی جس کو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ اس نے کہا، "خدا زمین سے اتنی محبت کرتا ہے کہ اس نے اس کو سورج سے بالکل مناسب فاصلے پر رکھا ہے۔" ایک چھ برس کے بچے کے طور پر میں اس سادہ لیکن زبردست دلیل کو سن کر سکتے میں آگیا تھا۔ اگر خدا زمین کو سورج سے دور رکھتا، تب سمندر جم چکے ہوتے۔ اگر وہ زمین کو کافی قریب رکھتا، تب سمندر ابل چکے ہوتے۔ اس کا مطلب معلمہ کے لئے نہ صرف یہ تھا کہ خدا وجود رکھتا ہے، بلکہ وہ مہربان بھی ہے، زمین کو اتنا پیار کرتا ہے کہ اس نے اسے سورج سے بالکل مناسب فاصلے پر رکھا ہے۔ اس بات نے مجھ پر کافی گہرا اثر ڈالا۔

    آج سائنس دان کہتے ہیں کہ زمین گولڈی لاکس زون میں موجود ہے ، اتنی دور جہاں مائع پانی "کائناتی محلول" حیات کے لئے ضروری کیمیا کو بنانے کے لئے وجود رکھتا ہے۔ اگر زمین سورج سے دور ہوتی، تو شاید یہ مریخ کی طرح، ایک منجمد صحرا بن جاتی جہاں درجہ حرارت سطح کو سخت اور بنجر بنا دیتا ، ایک ایسی بنجر سطح جہاں پانی بلکہ کاربن ڈائی آکسائڈ بھی اکثر منجمد ہو کر ٹھوس ہو جاتی ہے۔ بلکہ مریخ کی مٹی کے نیچے تو مستقلاً منجمد سطح - ایک مستقل جمی ہوئی پانی کی پرت- ہوتی ہے۔

    اگر زمین سورج سے قریب ہوتی تو ممکن ہے کہ وہ زہرہ کی طرح بن جاتی، جو لگ بھگ زمین ہی کے حجم کا ہے لیکن "نباتاتی خانے کے اثر" کے سیارے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کیونکہ زہرہ سورج سے کافی قریب ہے اور اس کا کرہ فضائی کاربن ڈائی آکسائڈ سے بنا ہوا ہے، لہٰذا جو توانائی زہرہ سورج سے حاصل کرتا ہے وہ درجہ حرارت کو ٩٠٠ ڈگری فارن ہائیٹ تک پہنچا دیتا ہے۔ اس وجہ سے، زہرہ نظام شمسی میں اوسطاً سب سے گرم سیارہ سیارہ ہے۔ گندھک کے تیزاب کی بارش کے ساتھ ، فضائی دباؤ زمین سے سینکڑوں گنا زیادہ ہوتا ہے اور درجہ حرارت آسمان سے باتیں کرتا ہے، اس وجہ سے شاید زہرہ ہمارے نظام شمسی میں سب سے زیادہ جہنم سے قریب سیارہ ہے۔ اور اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ وہ سورج سے زمین کی بہ نسبت قریب ہے۔

    میرے اسکول کی دوسری جماعت کی معلمہ کے دلائل کا تجزیہ کرنے کے بعد ، سائنس دان یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ اس کی یہ دلیل اصول بشر کی ایک مثال ہے، جو یہ بات بیان کرتی ہے کہ قوانین قدرت اس طرح سے ترتیب میں ہیں کہ حیات اور شعور کا ممکن ہونا ہو سکے۔ بھلے قوانین کی یہ ترتیب کسی عظیم خالق نے کی ہو یا یہ کسی حادثاتی نتیجے میں حاصل ہوئی ہے یہ موضوع کافی گرما گرم مباحثوں کا باعث بنا ہوا ہے۔ بالخصوص حالیہ برسوں میں کافی تعداد میں ملنے والے "حادثات" یا اتفاقات کی وجہ سے جو حیات اور شعور کو بنا سکتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے لئے یہ ایک ایسے معبود کا ثبوت ہے جس نے جان بوجھ کر قوانین قدرت کو اس طرح سے ترتیب دیا ہے کہ حیات اور انسانوں کی تخلیق ممکن ہو سکے۔ لیکن کچھ دوسرے سائنس دانوں کے مطابق اس کا مطلب ہے کہ ہم نیک حادثات کے سلسلے کی ضمنی پیداوار ہیں۔ اور شاید کچھ لوگ افراط اور ایم نظریئے کی شاخ در شاخ بڑھوتری پر یقین رکھتے ہیں یعنی کہ ان کے مطابق کثیر کائناتیں موجود ہیں۔

    ان دلائل کی پیچیدگی کو سمجھنے کے لئے پہلے ان اتفاقات کو دیکھنا ہوگا جس نے زمین پر حیات کو ممکن بنایا ہے۔ نہ صرف ہم سورج کے گولڈی لاکس زون میں رہتے ہیں بلکہ ہم دوسری قسم کے گولڈی لاکس زونوں میں بھی رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارا چاند زمین کے مدار کو پائیداری فراہم کرنے کے لئے بالکل صحیح حجم کا ہے، اگر چاند اس سے چھوٹا ہوتا تو زمین کے محور میں ہونے والا خفیف سا اضطراب بھی زمین کے مدار کو بتدریج آہستہ آہستہ کروڑوں برس کے عرصے میں جا کر تباہ کن طور سے ڈگمگا دیتا اور ماحول میں ایسی خطرناک تبدیلیاں پیدا کرتا جس سے حیات کا وجود ناممکن الوقوع ہو جاتا۔ کمپیوٹر پروگرام ہمیں بتا رہے ہیں کہ ایک بڑے چاند (زمین کے حجم کے ایک تہائی ) کے بغیر ، زمین کا محور شاید ٩٠ ڈگری تک کروڑ ہا برسوں میں جا کر تبدیل ہو جاتا۔ کیونکہ سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ڈی این اے کی تخلیق کے لئے کروڑ ہا برسوں کے پائیدار ماحول کی ضرورت تھی، لہٰذا ایک ایسی زمین جو وقتاً فوقتاً اپنے محور پر اتھل پتھل ہو وہ ماحول میں اس قسم کی تبدیلی لا سکتی تھی جس سے ڈی این اے کی تخلیق ناممکن ہو جاتی۔ خوش قسمتی سے ہمارا چاند بالکل ٹھیک اسی حجم کا ہے جو زمین کے مدار کو پائیداری فراہم کرنے کے ضروری ہے اس لئے اس طرح کو کوئی ایسی تباہی نہیں پھیلے گی۔ (مریخ کے چاند اتنے بڑے نہیں ہیں کہ وہ اس کے محور ی گردش کو پائیداری فراہم کریں۔ نتیجتاً مریخ نے آہستگی کے ساتھ ایک اور غیر پائیدار دور میں داخل ہونے کی شروعات کردی ہے۔ ماہرین فلکیات کو یقین ہے کہ ماضی میں مریخ اپنی محور پر ٤٥ ڈگری تک ڈگمگا یا ہوگا۔)

    چھوٹی مد و جزر کی قوّتوں کی وجہ سے چاند زمین سے ہر سال چار سینٹی میٹر دور ہو رہا ہے، دو ارب سال بعد یہ زمین سے اس قدر دور ہو جائے گا کہ یہ زمین کی محوری گردش کو پائیداری فراہم نہیں کر سکے گا۔ یہ زمین پر موجود حیات کے لئے انتہائی تباہ کن بات ہوگی۔ آج سے ارب ہا برس بعد نہ صرف رات کا آسمان چاند کے بغیر ہوگا بلکہ ہم ایک بالکل ہی مختلف قسم کے برج دیکھ رہے ہوں گے کیونکہ زمین اپنے مدار پر لڑکھڑا رہی ہوگی۔ زمین پر موجود ماحول ناقابل پہچان ہو چکا ہوگا اور حیات کا وجود برقرار رکھنا ناممکن ہوگا۔

    یونیورسٹی آف واشنگٹن کے ماہر ارضیات پیٹر وارڈ اور ماہر فلکیات ڈونلڈ براؤنلی لکھتے ہیں ، " بغیر چاند کے زمین پر کوئی چاندنی نہیں ہوگی، نہ قمری مہینہ، نہ دیوانگی، نہ اپالو پروگرام، کم شاعری اور ایک ایسی دنیا جہاں ہر رات تاریک اور افسردہ ہوگی۔ چاند کے بغیر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نہ کوئی پرندہ، نہ تاڑ کا درخت، نہ وہیل مچھلی، نہ سہ لختہ دار بحری جانور، اور نہ ہی کسی قسم کی پیچیدہ حیات کبھی زمین پر قدم رنجہ فرما سکے گی۔"

    اسی طرح سے ہمارے نظام شمسی کے کمپیوٹر نمونے ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمارے نظام شمسی میں مشتری جیسے سیارے کی موجودگی زمین پر موجود حیات کے لئے ایک خوش قسمت چیز ہے۔ کیونکہ اس کی شاندار قوّت ثقل سیارچوں کو خلائے بسیط میں اٹھا کر پھینک دیتی ہے۔ ان سیارچوں کی صفائی جو نظام شمسی کی تشکیل کے بعد گرد و غبار اور سیارچوں کی صورت میں بچ گئے تھے ایک ارب برس کا طویل عرصہ لگا تھا جو آج سے ساڑھے تین ارب برس سے لے کر ساڑھے چار ارب سال پہلے کے عرصے پر محیط تھا جس کو "سیارچوں کا دور" کہتے ہیں۔ اگر مشتری کافی چھوٹا ہوتا اور اس کی قوّت ثقل کم ہوتی تب بھی ہمارا نظام شمسی اب تک سیارچوں سے بھرا ہوا ہوتا جو زمین پر حیات کے وجود کو ناممکن بنا دیتے۔ لہٰذا مشتری بھی بالکل موزوں جسامت کا ہے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: خلق کردہ کائنات؟ - حصّہ اوّل Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top