Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 29 جون، 2016

    خلق کردہ کائنات؟ - حصّہ دوم



    ہم سیاروں کے حجم کے گولڈی لاکس زون میں رہ رہے ہیں۔ اگر زمین تھوڑی سی چھوٹی ہوتی، تو اس کی قوّت ثقل کمزور ہوتی جو آکسیجن کو پکڑ کر نہیں رکھ سکتی تھی۔ اگر یہ تھوڑی بڑی ہوتی تو یہ ان ابتدائی زہریلی گیسوں کو پکڑ لیتی جو حیات کی نمو کو ناممکن بنا دیتی۔ زمین کا حجم بالکل موزوں ہے جو ماحولیاتی ترتیب کو حیات کے لئے مفید رکھتا ہے۔ ہم مباح سیاروی مداروں کے گولڈی لاکس زون میں رہتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر سوائے پلوٹو کے دوسرے تمام سیاروں کے مدار قریباً دائروی ہیں، مطلب سیاروں کا ٹکراؤ ہمارے نظام شمسی میں نہایت ہی نایاب ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زمین گیسی دیوہیکل سیاروں کے قریب نہیں آئی گی جن کی قوّت ثقل آسانی سے زمین کے مدار کو تہس نہس کر سکتی ہے۔ دوبارہ ہم وہی بات کہیں گے کہ یہ حیات کے لئے اچھی بات ہے جس کو نمو کے لئے کروڑ ہا برس کی پائیداری درکار ہوتی ہے۔

    اسی طرح سے زمین ملکی وے کہکشاں کے گولڈی لاکس زون میں موجود ہے، جو مرکز سے دو تہائی دور ہے۔ اگر نظام شمسی کہکشانی مرکز سے کافی قریب ہوتا، جہاں بلیک ہولز گھات لگائے بیٹھے ہیں، تو اشعاع کے میدان اس قدر شدید ہوتے کہ حیات کا ہونا ناممکن الوقوع ہوتا۔ اور اگر نظام شمسی کہکشاں سے کافی دور ہوتا، تو بھاری عناصر اتنی تعداد میں نہیں ہوتے جو حیات کے جز کے لئے ضروری ہیں۔

    سائنس دان زمین کے دسیوں ہزار قسم کے گولڈی لاکس زون میں ہونے کی ایسی کئی مثالیں دے سکتے ہیں۔ ماہر فلکیات وارڈ اور براؤن لی دلیل دیتے ہیں کہ ہم اس قدر زیادہ بہت ہی نازک گولڈی لاکس زونوں میں رہتے ہیں جو ذی شعور حیات کا زمین پر ممکن الوقوع ہونا ملکی وے کہکشاں میں تو دور کی بات کائنات میں بھی کافی انوکھا ہو سکتا ہے۔ یہ اس شاندار فہرست کو دہراتے ہیں جس میں زمین کو موزوں اور مناسب چیزیں ملی ہیں جن میں، سمندر، ارضی سختائے ہوئے حصّے، آکسیجن کی مقدار، حرارت کی مقدار، محور کے گرد جھکاؤ، وغیرہ وغیرہ شامل ہیں جن کی مقدار بالکل موزوں و مناسب ہے۔ اگر زمین ان میں سے کسی بھی نازک بند کے باہر ہوتی تو ہم یہاں اس بات کو زیر بحث کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔

    کیا زمین ان تمام گولڈی لاکس زونوں کے عین درمیان اس لئے ہے کہ خدا بہت رحیم ہے؟ شاید۔ لیکن ہم ایک ایسے نتیجے پر بھی پہنچ سکتے ہیں جس کی بنیاد الوہیت پر نہیں ہوگی۔ شاید کروڑ ہا مردہ سیارے خلاء میں ایسے موجود ہیں جو اپنے مرکزی سیارے سے انتہائی نزدیک ہیں، جن کے چاند بہت چھوٹے ہیں، جن کے مشتری جیسے سیارے چھوٹے ہیں یا جو اپنی کہکشانی مرکز کے کافی نزدیک ہیں۔ زمین کی مناسبت سے گولڈی لاکس زونوں کے وجود کا مطلب لازمی طور پر یہ نہیں ہے کہ خدا نے ہم پر خاص رحمت کی ہے؛ یہ اتفاقی بات بھی ہو سکتی ہے، خلاء میں موجود کروڑ ہا مردہ سیاروں میں سے ایک نایاب مثال جو گولڈی لاکس زونوں کے باہر موجود ہیں ۔

    یونانی فلسفی دمقراط جس نے جوہر کے وجود کا قیاس کیا تھا لکھتا ہے ، " لامحدود تعداد اور مختلف حجم کی دنیائیں موجود ہیں۔ کچھ میں تو نہ تو سورج ہے نہ ہی چاند۔ دوسروں میں ایک سے زیادہ چاند اور سورج ہیں۔ جہانوں کے درمیان فاصلے غیر یکساں ہیں، کچھ سمت میں وہ کافی زیادہ ہیں۔۔۔ ان کی تباہی ایک دوسرے سے متصادم ہونے کی صورت میں ہوتی ہے۔ ان میں سے کچھ جہاں بد نصیب ہیں جن میں نہ تو جانور ہیں نہ ہی پودے اور نہ ہی کسی قسم کی نمی۔" 

    2002ء تک اصل میں ماہرین فلکیات نے ایک سو سے زائد ماورائے شمس سیارے تلاش کر لئے ہیں جو دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ ماورائے شمس سیارے ہر دو ہفتہ میں ایک سیارے کی شرح سے دریافت ہو رہے ہیں۔ کیونکہ ماورائے شمس سیاروں کی اپنی کوئی روشنی نہیں ہوتی، ماہرین فلکیات کو انہیں ڈھونڈنے کے لئے مختلف بالواسطہ طریقوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ان کو تلاش کرنے کا سب سے معتبر طریقہ یہ ہے کہ مرکزی ستارے میں ہونے والی ڈگمگا ہٹ کو دیکھا جائے جو اس وقت ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے جب مشتری کے حجم جتنے سیارے اس کے قریب سے گزرتے ہیں۔ ڈگمگاتے ستارے سے نکلتی روشنی کے ڈوپلر منتقلی کے اثر کی جانچ کے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس قدر تیز حرکت کر رہا ہے اور پھر بعد میں نیوٹن کے قوانین کا استعمال کرکے اس کی کمیت کا معلوم کیا جا سکتا ہے۔ 

    آپ ستارے اور بڑے سیارے کو محو رقص ساتھی سمجھ سکتے ہیں جو گھومتے ہوئے ایک دوسرے کے پھیلے ہوئے ہاتھوں کو پکڑے ہوئے ہیں۔ باہر کی جانب چھوٹا ساتھی ایک بڑے دائرے میں زیادہ فاصلے پر حرکت کر رہا ہے، جبکہ بڑا اندرونی ساتھی صرف اپنا پیر بہت ہی چھوٹے دائرے میں ہلا رہا ہے۔ بہت ہی چھوٹے اندرونی دائرے میں ہونے والی حرکت ایک ڈگمگاہٹ ہے جو ہم ان ستاروں میں دیکھتے ہیں،"کارنیجی انسٹیٹیوشن کے کرس مکارتھی کہتے ہیں ۔ یہ عمل اب اس قدر درست ہے کہ ہم سینکڑوں نوری برس دور ستارے کی سمتی رفتار میں تین میٹر فی سیکنڈ کی خفیف سی تھرتھراہٹ کا بھی سراغ لگا سکتے ہیں۔

    ایک اور زبردست طریقہ پیش کیا گیا ہے جس سے مزید سیارے ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ سیارے کو اس وقت دیکھنا ہوتا ہے جب وہ اپنے ستارے کو گہن لگائے، اس وقت ستارے کی روشنی میں ہلکی سی کمی ہوتی ہے کیونکہ سیارہ ستارے کے سامنے سے گزر رہا ہوتا ہے۔ اور صرف پندرہ سے بیس برسوں کے درمیان ناسا تداخل پیمائی کا خلائی سیارچہ مدار میں بھیجے گا جو اس قابل ہوگا کہ زمین جیسے چھوٹے سیاروں کو خلائے بسیط میں ڈھونڈ نکالے۔(کیونکہ مرکزی ستارے کی تابانی سیارے کو چھپا دیتی ہے ، یہ سیارچہ تداخل پیما کو استعمال کرتے ہوئے ستارے کی روشنی کا زبردست ہالہ زائل کر دے گا، اور اس طرح سے زمین جیسے سیارے واضح ہو جائیں گے۔)

    سر دست کوئی بھی مشتری جیسا ماورائے شمس سیارہ جس کو ہم نے دریافت کیا ہے زمین سے نہیں ملتا اور ممکنہ طور پر تمام کے تمام مردہ ہیں۔ ماہرین فلکیات نے انھیں بہت ہی زیادہ بیضوی مداروں میں یا اپنے مرکزے ستارے کے گرد چکر لگاتے ہوئے پایا ہے ان دونوں صورتوں میں زمین جیسے سیارے کا گولڈی لاکس زون میں پایا جانا ممکن نہیں ہے ۔ ان نظام ہائے شمسی میں مشتری کے حجم کے سیارے نے گولڈی لاکس زون کو پار کرتے ہوئے زمین جیسے کسی سیارے کو خلائے بسیط میں دھکیل دیا ہوگا اور اس طرح سے ہماری جانی پہچانی حیات کو نمودار ہونے سے پہلے ہی روک دیا ہوگا۔ 

    بہت ہی زیادہ بیضوی مدار خلاء میں کافی عام ہیں یہ درحقیقت اتنے عام ہیں کہ جب کوئی عام نظام شمسی خلاء میں دریافت ہوا تو اس نے ٢٠٠٣ء میں شہ سرخیوں میں جگہ پائی۔ ریاست ہائے متحدہ اور آسٹریلیا کے ماہرین فلکیات دونوں نے ایک ستارے HD 70642 کے گرد گردش کرنے والے مشتری کے حجم کے سیارے کی دریافت کا ڈھنڈورا پیٹا ۔ اس سیارے (جو حجم میں لگ بھگ مشتری سے دگنا تھا) میں عجیب چیز تھی وہ یہ سیارہ دائروی مدار میں تھا اور اس کا اپنے مرکزی سورج سے فاصلے کی نسبت بھی لگ بھگ مشتری جتنی ہی تھی۔

    مستقبل میں ماہرین فلکیات تمام قریبی ستاروں کے نظام ہائے شمسی کی فہرست بنانے کے قابل ہو جائیں گے۔ "ہم تمام ٢٠٠٠ کے لگ بھگ سورج جیسے ستاروں کی فہرست مرتب کرنے پر کام کر رہے ہیں، وہ تمام سورج جیسے ستارے جو ١٥٠ نوری برس کے فاصلے پر موجود ہیں۔" کارنیگی انسٹیٹیوشن آف واشنگٹن کے پال بٹلر کہتے ہیں، جو ١٩٩٥ءمیں پہلے ماورائے شمس ستارے کی دریافت کرنے والوں میں شامل تھے۔ "ہمارا دہرا مقصد ہے – ابتدائی معائنہ فراہم کرنا - پہلی گنتی – خلاء میں موجود ہمارے قریبی پڑوس کی اور وہ اوّلین اعداد و شمار کی فراہمی ہے جو اس بنیادی سوال کا جواب دے گا کہ ہمارا اپنا نظام شمسی کائنات میں کس قدر عام یا خاص ہے،" وہ کہتے ہیں ۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: خلق کردہ کائنات؟ - حصّہ دوم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top