Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    ہفتہ، 25 جون، 2016

    بیرونی نظام شمسی - ایک نیا صحرا


    تاریخ کھوج کو استحصال میں بدلنے کی گواہ رہی ہے، اور موخّرالذکر ہمارے ارد گرد کی خوبصورتی کو اکثر برباد کرتی رہی ہے۔ جیسا کہ بیرونی نظام شمسی انسانی سلطنت کا حصّہ بنے گا تو ہم اس کو کس طرح سے دیکھیں گے؟ ہم اس سے کیسے نمٹیں گے؟ ویرانگی کا مطلب مختلف ثقافتوں میں مختلف ہے۔ نئی سرحدوں کا تصوّر ایک ایسی جگہ جو توسیع اور آبادکاری اور فتح کرنے کی ہو، اسی طرح کی جگہ نے قدیمی یورپیوں کو امریکہ میں نقل مکانی کرنے کے لئے ترغیب دی تھی۔ مغربی نقل مکانی کو کئی لوگ بجائے ایک قدرتی جگہ کے دیکھنے کے قدرتی وسائل یا ایک کھیل کے میدان کے طور پر دیکھتے ہیں ۔ کچھ لوگوں نے اس سلسلے میں معاندانہ رویہ رکھا ہوا ہے ان کے مطابق انسانوں کا یہ طریقہ قدرتی کام میں مداخلت کرنے جیسا ہے۔ تاہم ویرانے کو آباد کرنا ایک طرح سے جائے پناہ کی تلاش بھی ہے ۔ دماغی اور روحانی فکروں کا احیاء کرنا ، ایک ایسی جگہ جہاں خوبصورتی کی اہمیت اور حقیقی قدر ہے۔

    ذہنوں کی تقسیم نئی دنیا میں اس وقت سے واضح ہے جب یورپی تہذیب نے اپنے قدم مشرق میں جمانے شروع کئے تھے۔ عملی وسائل اور تجارتی راستوں کو حاصل کرنے کے ساتھ ابتدائی مغربی سفر باقاعدگی سے اپنے ساتھ نئی دنیا کے محسوسات اور دریافتوں کے لئے فنکاروں کو بھی لے کر آتے تھے۔ البرٹ بیرسٹاڈٹ اور تھامس موران کی مصوری نے یو ایس کانگریس کو دو پہلے قومی پارک یلو اسٹون اور یوسی مائیٹ میں بنانے میں مدد دی۔ فریڈرک کیتھر ووڈ نے مایا، ازٹیک اور انکان کے کھنڈرات کی دریافت کو درجہ بند کیا جس کو جان لوائیڈ نے ڈھونڈا تھا۔ فریڈرک چرچ نے انٹارکٹکا، جنوبی امریکہ اور دوسرے گردو پیش کی طرف سفر کرکے تاریخ میں موجود کچھ سب سے عمدہ قدرتی سائنس کی منظر کشی کی۔ سماج نے فاتح یا آباد کاروں سے تبدیل ہوتے ہوئے محافظوں کو دیکھا۔


    خاکہ 10.15 میسا چوسٹس کے علاقے نارتھیمٹن میں ماؤنٹ ہولیوک سے گرج چمک طوفان کے بعد کے منظر کی تصویر – اوکس بو از تھامس کولی، 1836ء۔ چھوٹی چیز کو نیچے بیچ میں دیکھیں اور دور کے ڈھلوان پر موجود واضح کٹاؤ کو دیکھیں۔ 


    شاید برتاؤ میں اس تبدیلی کی سب سے واضح صورت گری انیسویں صدی کے ہڈسن ریور اسکولآف امریکن پینٹنگ سے دیکھی جا سکتی ہے۔ ہڈسن ریور فنکار نے کھوج، دریافت اور نئی جہانوں کی بنیاد کو بیان کیا ہے، یہی تصوّر دیوہیکل جہانوں کے لئے بھی کارگر ہوگا۔ اس کے اراکین اکثر چھوٹی چیزوں کو بیان کرتے ہیں جیسے چراگاہ، مثالی میدان ،پرامن پرسکون قدرتی مناظر۔ ہڈسن مصوری کی تحریک کے وقت زراعت اور آباد کاری کی وجہ سے ہڈسن وادی سے صحرائی بیابانی تیزی سے ختم ہو رہی تھی۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ یہ عمل اس وقت جاری تھا جب مقامی سماج علاقے کی چکا چوند زمین کو دیکھ کر خوش ہونا شروع ہوا تھا۔ 

    انسان ایک نئے وسیع جہاں کی سرحد پر کھڑا تھا۔ کچھ کے خیال میں یہی وقت ہے کہ ہم اس سے نسبت دیتے ہوئے مستقبل کے منصوبے بنائیں۔ "ہم نے کوشش کی ہے کہ دوسرے وسیع بیابان علاقوں کو محفوظ رکھیں جس میں سے کچھ کامیابی بھی ہوئی ہے، بطور خاص قطبی علاقے اور سمندر۔ خلائی بیابانوں کی حفاظت کرنا ہمارے سامنے کچھ ہی عشروں میں کھڑی ہو جائے گی۔ ہمیں اس وقت اٹھ کھڑا ہونا چاہئے تاکہ ہم اس بارے میں قواعد ضوابط بنا لیں۔ مصنف پال ایف اہلر اور ولیم پی بشپ کہتے ہیں۔[1]

    کیا ہم اکیسویں صدی کے انسان اپنے آپ کو قدرت کے فاتحین کے طور پر دیکھ رہے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے گرد موجود ماحول صرف انسانیت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہے؟ (یہ کافی مشکل ہے کہ بیابانی کو ہم قدرت کو فتح کرنے جیسا سوچیں جب وہ مہلک خلاء اور شدید درجہ حرارت کی حامل ہو!) یا ہم اپنے آپ کو قدرت کا ایک لازمی حصّہ سمجھتے ہیں؛ کیا ہم بیابانی کو اپنے لئے نعمت غیر مترقبہ سمجھتے ہیں؟ کیا ہم ان دونوں کے درمیان کہیں کھڑے ہیں؟ جیسے ہماری ٹیکنالوجی اس نقطہ کی جانب رو بہ سفر ہیں جہاں ہم بیرونی نظام شمسی میں آباد ہو سکیں، ہمیں اس کی طاقت کا اچھی طرح ادراک ہونا چاہئے۔ پروفیسر رولسٹن سوم کو بابائے ماحولیاتی اصول کہا جاتا ہے، وہ مستقبل کے حوالے سے سیاروی کھوج اور آبادکاری سے متعلق چھ رہنما اصول پیش کرتے ہیں۔[2]

    1۔ان قدرتی جگہوں کو نہ چھیڑا جائے اور ان کی قدر کی جائے جن کا باقاعدہ نام رکھا گیا ہے۔ کچھ اس معرفہ راستوں کی نشاندہی، ارضیات وغیرہ کے لئے رکھے جاتے ہیں۔ (مثال کے طور پر چار کونوں والا علاقہ یا گلیلیو ریجیو )۔ دوسروں کے نام اپنی مرضی سے دیئے گئے ہیں۔ تاہم کچھ بناوٹیں جگہیں اپنی کائناتی شناختی اہمیت کی وجہ سے نام چاہتی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ان کو بچا کر رکھنا چاہئے، وہ تجویز پیش کرتے ہیں۔

    2۔ اجنبی اور شدید جگہوں کو بچا کر اور ان کی قدر کی جائے۔ دوسرے جہاں قدرتی بناوٹوں کو اس طرح پیش کرتے ہیں جو زمین یا کسی بھی معلوم جہاں میں وجود نہیں رکھ سکتی۔ یہ منفرد جگہیں محفوظ ہونی چاہیں۔ روسلٹن تشریح کرتے ہیں، " جس طرح سے انسان بوقلمونی کی قدر زمین پر کرتے ہیں، اسی طرح سے انسانوں کو بوقلمونی کی قدر نظام شمسی اور تمام طاقتور ثمر آور قدرتی جگہوں کی کرنی چاہئے۔۔۔ بادی النظر میں تخلیقی واقعات قدرتی طور پر نایاب ہیں، اس کی وجہ اس کی حفاظت ہے۔ ایسی جگہوں پر انسان چیزوں کی ہئیت کے بارے میں کافی کچھ جان سکتے ہیں ۔" 

    3۔ تاریخی اہم جگہوں کی حفاظت اور قدر کریں۔ مثال کے طور پر انسان جب چاند پر واپس جائیں ، مریخ پر گھر بسانا شروع کریں یا زہرہ کے میدانوں کا جوکھم اٹھائیں، تو اپالو ، وائکنگ اور ونیرہ کا ان پر اترنے والی جگہوں کا کیا ہوگا؟[3]۔ کچھ کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی اب اس نقطہ پر آ گئی ہے جہاں اپالو کی چاند کی اترنے والی جگہیں پہلے ہی سے خطرے میں ہیں۔ گوگل لونر ایکس پرائز کا اصل کہتا ہے: اس انعام کو جیتنے کے لئے، ایک نجی کمپنی کو لازمی طور پر محفوظ طریقے سے چاند کی سطح پر اترنا ہے، 500 میٹر اوپر نیچے یا چاند کی سطح پر سفر کرنا ہے اور دوسرے چاند سے ویڈیو کو زمین پر بھیجنا ہے۔ بعد میں ناسا اور گوگل کے ذمہ داران نے اعلان کیا کہ" یہ دوڑ ناسا کے بنائے ہوئے قوانین کا پاس کرے گی جو تاریخی اور سائنسی اہمیت کی چاند کی سطح پر جگہوں کی حفاظت سے متعلق ہوگا۔" تاہم یہاں پر ایک اور مسئلہ ہے ناسا کے قواعد ضوابط جو اپالو کے اترنے والی جگہ سے متعلق ہوں گے اس میں امریکی اثر ہوگا۔ ان کی زبان ان جگہوں جیسی ہے جو یو ایس پارک سروس گائیڈ لائن فار امریکن نیشنل پارکس میں استعمال ہوئی ہے۔ اگر ہم اہم تاریخی جگہوں کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ جگہیں بین الاقوامی طور پر جانی جائیں گی۔

    4۔ تخلیقی اور سرگرم جگہوں کی حفاظت اور قدر کریں۔ یوروپا، انسیلیڈس اور مریخ آج سرگرم حیاتیاتی خطے کے لئے امید وار ہیں۔ تاوقتیکہ ہم حیات کی ہئیت کے بارے میں اور ان جگہوں میں اس کے امکان کے بارے میں مزید جانیں ،رولسٹن تجویز پیش کرتے ہیں کہ ان کو انسانوں کی پہنچ سے دور رکھنا چاہئے۔

    5۔ جمالیاتی اہمیت کی حامل جگہوں کی حفاظت اور قدر کریں۔ یہ ممکن ہے کہ کافی ساری ساختیں جو ہم نے برفیلے مہتابوں پر دیکھیں ہیں وہ اتنی نازک ہوں کہ انسانی آمدورفت اس کو نقصان پہنچائے یا تباہ ہی کر دے۔

    6۔ان انقلاب پذیر اہمیت والی جگہوں کی حفاظت و قدر کی جائے۔ رولسٹن اس کو ایسے کہتے ہیں: " انسانوں کو ایسی جگہوں کو محفوظ رکھنا چاہئے جو بنیادی طور تناظر کو تبدیل کر دے۔ جس طرح سے یہ قرون وسطیٰ کے یورپ کے لئے اچھی چیز تھی کہ تنگ نظری کو اتار کر پھینک دیں، بصیرت سے سائنسی انقلاب رونما کریں ، یہ بھی زمین کے باسیوں کے لئے ایک اچھی چیز ہوگی کہ وہ زمین کی چیزوں سے چھٹکارا حاصل کریں۔۔۔ وہ جو قدرت کے ساتھ سنجیدگی سے منتشر نہ ہو سکے انہوں نے سنجیدگی کے ساتھ اس کا سامنا نہیں کیا تھا۔" 



    اگر ہماری راکٹ کو چلانے کی صلاحیت، اور انجنیئر نگ اگلی صدی میں اس تیزی سے ترقی پذیر ہوئی جس طرح سے وہ پچھلی صدی میں ہوئی تھی اور اگر ارضی سیاسی منظر نامے نے اس بات کی اجازت دی تو کھوجی اگلی صدی میں بیرونی نظام شمسی میں موجود ہوں گے۔ اس مقام پر، انسانیت "سنجیدگی کے ساتھ تباہی " کا سامنا اس کی نوعیت کے ساتھ کرے گی جس طرح سے ہم گیسی اور برفیلے جہانوں کا سامنا کریں گے۔ ہینری ڈیوڈ تھوریا کہتے ہیں: " ہمیں خود سری کا شربت درکار ہے ۔۔۔۔۔ اس وقت جب ہم کھوج اور تمام چیزوں کو سیکھنے کے لئے زانوئے تلمذ بچھائے ہوئے ہیں ، ہمیں تمام چیزیں اسرار اور ناقابل کھوج چاہیں، زمین اور سمندر وحشی، قابل سروے اور ہمارے لئے ناقبول فہم ہیں ۔۔۔" تاہم یہ ویرانگی کس طرح ثقافتی اور نفسیاتی طور پر ہم پر اثر انداز ہوگی؟






    [1]۔ پال ایف اہلر اور ولیم پی بشپ، " خلاء میں ویرانگی" از Spaceship Earth: Environmental Ethics and the Solar System، مدیر یوجین سی ہارگروو (سیرا کلب بکس، 1986ء) 




    [2] ۔ " Spaceship Earth: Environmental Ethics and the Solar System" (سیرا کلب بکس، 1986ء ) 




    [3] ۔ اصل میں تاریخی اترنے والی جگہوں پر پہلے ہی جایا جا چکا ہے: اپالو 12 کا عملہ سرویر سوم خلائی گاڑی سے صرف چند قدم پر اترا تھا، جس کو طوفانوں کے سمندر میں 31 ماہ پہلے بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے ٹی وی کیمرا، مٹی کے نمونے، اور کچھ ایلومینیم کی ٹیوب کو واپس زمین پر تجزیہ کرنے کے لئے لے آئے تھے۔ ٹیمیں چاند پر موجود انسانی چیزوں کو ڈھونڈنے کے لئے بھی مقابلے میں حصّہ لے سکتی ہیں۔۔۔" یہ آخری جملہ وہ ہے جو ماہر آثارات اور مورخین کو خبردار کر رہا ہے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: بیرونی نظام شمسی - ایک نیا صحرا Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top