Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    اتوار، 5 جون، 2016

    گیارہویں جہت




    ١٩٩٤ء ایک دھماکہ کیا گیا۔ ایک اور ایسی دریافت ہوئی جس نے پورا زاویہ نگاہ ہو ہی بدل دیا۔ کیمبرج یونیورسٹی کے ایڈورڈ ویٹن اور پال ٹاؤن سینڈ نے ریاضیاتی طور پر دریافت کی کہ دس جہتی اسٹرنگ نظریہ اصل میں ایک نامعلوم مبدا کی پراسرار اور اضافی گیارہویں جہت کے نظریہ کے مشابہ ہے ۔ مثال کے طور پر ویٹن نے بتایا کہ اگر ہم جھلی والے نظریئے کو لے کر اس کی ایک جہت کو موڑ دیں تو یہ دس جہتی قسم دوم الف کی اسٹرنگ نظریہ بن جائے گی!

    اس کے بعد جلد ہی اس بات کو بھی معلوم کرلیا گیا کہ تمام کی تمام پانچوں اسٹرنگ کے نظریئے اس طرح کا برتاؤ کرتے ہیں یعنی کہ یہ سب کے سب الگ الگ گیارہویں جہت کے مشابہ ہیں۔ کیونکہ مختلف اقسام کی جھلیاں گیارہویں جہت میں ہو سکتی ہیں، ویٹن نے اس نئے نظریئے کو ایک نظریئے کا نام دیا۔ نہ صرف اس نے پانچ مختلف اسٹرنگ نظریوں کو ایک وحدت میں پرو دیا بلکہ اضافی طور پر اس نے فوق قوّت ثقل کو بھی بیان کر دیا۔ 

    اگر آپ کو یاد ہو کہ فوق قوّت ثقل ایک گیارہویں جہت کا نظریہ تھا جس میں صرف دو ذرّات ہوتے ہیں جن کی کمیت صفر ہوتی ہے، جو آئن سٹائن کی اصل گریویٹون ہے ۔ مزید براں یہ اپنے فوق متشاکل ساتھی (جس کو گریوٹینو بھی کہتے ہیں ) کو بھی یہ بیان کر دیتی ہے۔ لیکن ایم نظریئے میں لامحدود ذرّات مختلف کمیتوں کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ ( جو بمطابق لامحدود تھرتھراہٹ کے ہوتے ہیں جو گیارہویں جہت کی جھلی کی کسی قسم پر تیر رہی ہوتے ہیں)۔ تاہم ایم نظریہ فوق قوّت ثقل کی موجودگی کی توجیح پیش کر سکتا ہے اگر ہم اس بات کو فرض کریں کہ ایک ایم نظریئے کا ایک ننھا حصّہ (ایک بے کمیت ذرّہ) ایک پرانا فوق قوّت ثقل نظریہ ہے۔ بالفاظ دیگر فوق قوّت ثقل نظریہ ایک ایم نظریہ کا ذیلی جوڑا ہے۔ اسی طرح سے اگر ہم یہ پراسرار گیارہویں جہت والی جھلی جیسے نظریئے کو لے کر اس کی ایک جہت کو موڑ دیں، تو جھلی تار میں بدل جائے گی۔ اصل میں یہ بعینہ قسم دوم کا اسٹرنگ نظریہ بن جاتا ہے! مثال کے طور پر اگر ہم کسی کرہ کو گیارہ جہتوں میں دیکھیں گے اور اس کی ایک جہت کو موڑ دیں گے، تو کرہ منہدم ہو جائے گا، اور اس کا خط استوا بند تار بن جائے گا۔ ہم اسٹرنگ نظریئے کو اس وقت گیارہویں جہت میں جھلی کی ایک قاش کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں جب ہم گیارہویں جہت کو ایک چھوٹے سے دائرے میں موڑتے ہیں۔ 

    پس اس طرح سے ہم خوبصورت اور سادہ طریقہ تمام دس جہتی اور گیارہ جہتی طبیعیات کو ہم آہنگ کرکے ایک نظریئے میں سمو دیتے ہیں! یہ ایک نظری مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

    مجھے اس دریافت کے اثرات اب بھی یاد ہیں۔ ٹاؤن سینڈ کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ اس نے سامعین سے میرا تعارف بھی کروایا۔ لیکن میری تقریر سے پہلے اس نے زبردست جوش کے ساتھ اس نئے نتیجے کو بیان کیا یعنی کہ گیارہویں جہت میں مختلف اسٹرنگ کے نظریات متحد ہو کر ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ میری گفتگو کا عنوان دسویں جہت تھا۔ اس سے پہلے کہ میں شروع کرتا اس نے مجھ سے کہا کہ یہ چیز ثابت ہو گئی تو میری گفتگو کا عنوان متروک ہو جائے گا۔

    میں نے دل ہی دل میں سوچا، "اوہ ہو ۔" یا تو وہ ہذیان بک رہا ہے، یا طبیعیاتی سماج مکمل طور پر الٹنے جا رہا ہے۔

    مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ لہٰذا میں نے اس پر سوالات کی یلغار کردی۔ میں نے اس طرف اشارہ کیا کہ گیارہویں جہتی فوق جھلیوں کا ایک نظریہ جسے اس نے بنانے میں مدد دی ہے وہ اس لئے فضول ہوگا کیونکہ وہ ریاضیاتی طور پر کند ہے، اور اس سے بھی زیادہ بری بات یہ ہے کہ یہ پائیدار نہیں ہے۔ اس نے تسلیم کیا کہ واقعی یہ مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے۔ لیکن اس کو بھرپور یقین تھا کہ یہ سوالات مستقبل میں حل کر لئے جائیں گے۔

    میں نے یہ بھی کہا کہ گیارہویں جہت کی فوق قوّت ثقل محدود نہیں ہے؛ یہ اسٹرنگ نظریئے کو چھوڑ کر دوسرے تمام نظریوں کی طرح نہیں ٹھر سکے گی۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا ۔ اس نے انتہائی اطمینان سے جواب دیا۔ کیونکہ فوق قوّت ثقل کچھ اور نہیں ہے بجائے ایک بڑے اور پراسرار نظریئے کے۔ ایم نظریہ محدود ہے اصل میں یہ اسٹرنگ نظریہ ہی تھا جس کو دوبارہ سے گیارہویں جہت میں جھلیوں کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔

    تب میں نے کہا کہ فوق جھلیاں ناقابل قبول ہیں کیونکہ کوئی بھی اس قابل نہیں ہو سکا کہ تصادم ہوتی اور دوبارہ بنتی ہوئی جھلیوں کے تعاملات کو بیان کر سکے۔(جیسا کہ میں نے خود بھی برسوں پہلے اسٹرنگ نظریئے پرلکھے جانے والے اپنے پی ایچ ڈی مقالے میں کیا تھا )۔ اس نے تسلیم کیا کہ یہ مسئلہ بھی اپنی جگہ موجود ہے لیکن یہ بھی حل ہو سکتا ہے۔ میں نے آخر میں یہ بھی کہا کہ کیونکہ ایم نظریہ تو اصل میں نظریہ ہی نہیں ہے، کیونکہ اس کی بنیادی مساوات کی کسی کو خبر نہیں ہے۔ اسٹرنگ نظریئے کے برعکس ( جس کو اس سادہ اسٹرنگ میدانی مساوات میں بیان کیا جا سکتا ہے جس کو میں نے برسوں پہلے لکھا تھا جو تمام نظریئے کا احاطہ کرتا ہے۔) جھلیوں کا کوئی میدانی نظریہ ہے ہی نہیں۔ اس نے یہ اعتراض بھی تسلیم کیا۔ لیکن اس کو یقین تھا کہ ایم نظریہ کی مساوات بھی بالآخر تلاش کر لی جائے گی۔

    میرا دماغ گھوم رہا تھا۔ اگر وہ درست ہوتا تو اسٹرنگ کا نظریہ ایک بار پھر سے بنیادی طور پر تبدیل ہو جاتا۔ جھلیوں کی جگہ کبھی طبیعیات کی دنیا میں کچرے کا ڈبہ ہوتی تھی اب یکدم وہ دوبارہ اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔ 

    اس انقلاب کی وجہ یہ تھی کہ اسٹرنگ نظریہ اب بھی پیچھے کی جانب ارتقائی منازل طے کر رہا تھا۔ آج بھی کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیا سادہ طبیعیاتی اصول اس پورے نظریہ کے پیچھے کار فرما ہے۔ میں اس کو اس طرح سے سمجھتا ہوں جیسے کہ کوئی صحرا میں چل رہا ہو اور اتفاقاً ایک چھوٹے اور خوبصورت کنکر سے جا ٹکرائے۔ جب ہم اس پر سے ریت کو ہٹائیں تو اس وقت ہمیں معلوم ہو کہ اصل میں یہ پتھر کا ٹکڑا تو ایک دیوہیکل اہرام کی چوٹی ہے جو ٹنوں ریت میں دفن ہے۔ برسوں کی محنت و مشقت کے بعد جب اس پر سے ریت کو ہٹایا جائے تو اس میں پر اسرار خط تصویر ، خفیہ تہ خانے اور سرنگیں ملیں۔ ایک دن اس کی نچلی منزل مل جائے اور بالآخر اس کا دروازہ کھول دیا جائے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: گیارہویں جہت Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top