Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    منگل، 7 جون، 2016

    لیزا رینڈل - حصّہ اوّل




    شاید اسٹرنگ نظریئے کے مقابلے میں ایم نظریئے کو جو سب سے زیادہ فوقیت حاصل ہے وہ یہ کہ یہ اضافی جہتیں بہت مہین ہونے کے بجائے اصل میں کافی بڑی ہو سکتی ہیں کہ ان کا مشاہدہ تجربہ گاہ میں کیا جا سکتا ہے۔ اسٹرنگ کے نظریئے میں ان چھ اضافی جہتوں کو لازمی طور پر ایک ننھی سی گیند میں لپٹا ہوا ہونا چاہئے، کثیر الجہت کیلیبی یو اتنا چھوٹا ہوگا کہ آج کے دور کے آلات سے دکھائی نہیں دے گا۔ یہ تمام چھ جہتیں اس قدر عمل بستگی میں جا چکی ہیں کہ اضافی جہتوں میں داخل ہونا ممکن نہیں رہا ہے۔ یہ بات ان لوگوں کے لئے مایوسی سے بڑھ کر ہے جو ایک دن اس امید کے انتظار میں تھے کہ وہ ثقب کرم کے ذریعہ عمل بستگی والی اضافی خلاء میں سے مختصر راستہ لینے کے بجائے ایک لامحدود اضافی مکان میں چڑھ جائیں گے۔ 

    بہرحال ایم نظریئے میں بھی جھلیاں موجود ہی؛ یعنی کہ یہ ممکن ہے کہ ہم اپنی پوری کائنات کو ایک جھلی کی طرح دیکھیں جو ایک اس سے بھی بڑی کائنات میں تیر رہی ہے۔ نتیجتاً ان تمام اضافی جہتوں کو گیند میں لپٹا ہوا ہونا ضروری نہیں ہے۔ اصل میں ان میں سے کچھ اتنی بڑی ہو سکتی ہیں کہ وہ لامحدود ہوں گی۔ 

    ایک طبیعیات دان جنہوں نے کائنات کی اس نئی تصویر کو کھوجنے کی کوشش کی ہے وہ ہارورڈ کی لیزا رینڈل ہیں۔ جوڈی فوسٹر سے ہلکی سی مشابہت رکھنے والی رینڈل اس خوفناک مسابقت، مردانہ اور مردوں سے زبردست طرح سے پر نظری طبیعیات کے شعبے میں کچھ الگ سی دکھائی دیتی ہیں۔ وہ اس تصوّر کی جانچ کر رہی ہیں کہ آیا کائنات اصل میں تین برین والی ہے جو مکان کی اضافی جہتوں میں تیر رہی ہے، شاید یہ بات اس کو بیان کر سکے کہ کیوں قوّت ثقل دوسری تین قوّتوں کے مقابلے میں کمزور ہے۔ 

    رینڈل کوئینز ، نیویارک میں پلی بڑھی ہیں( یہ وہی آرچی بنکر کا قصبہ ہے)۔ بچپن میں ان کو طبیعیات سے کوئی لگاؤ نہیں تھا، وہ ریاضی سے شغف رکھتی تھیں۔ ہرچند کہ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ہم میں سے ہر ایک سائنس دان ہی پیدا ہوتا ہے بس مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ہم میں سے سب اس سائنس دان عہد بلوغت تک لے کر آگے نہیں چل سکتے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم ریاضی کی دیوار سے ٹکرا جاتے ہیں۔

    یہ بات کسی کو چاہئے اچھی لگے یا بری لیکن اگر ہمیں سائنس کو بطور پیشہ اپنانا ہے تو ہمیں "قدرت کی زبان" یعنی کہ ریاضی سیکھنی ہوگی۔ ریاضی کے بغیر ہم صرف قدرت کے ناچ میں خود سے حصّہ لینے کے بجائے تماشائی بن کر اس ناچ کو دیکھیں گے۔ جیسا کہ ایک مرتبہ آئن سٹائن نے کہا تھا، "خالص ریاضی" اپنی روح میں منطقی خیالات کی شاعری ہے۔" چلیں مجھے اس بات کو یوں کہنے دیں۔ کوئی فرانسیسی تہذیب و تمدن سے پیار کر سکتا ہے، لیکن فرانسیسی خیالات کو صحیح طرح سے سمجھنے کے لئے، فرانسیسی زبان اور فعل کی گردان کو اچھی طرح سے سمجھنا ہوگا۔ یہ بات سائنس اور ریاضی کے لئے بھی بالکل ایسی ہی ہے۔ گلیلیو نے ایک مرتبہ لکھا، "[کائنات] کو اس وقت تک نہیں پڑھا جا سکتا جب تک ہم زبان کو نہ سیکھ لیں اور ان حروف سے شناسا نہ ہو جائیں جس میں اس کو لکھا گیا ہے۔ یہ ریاضیاتی زبان میں لکھی گئی ہے، اور الفاظ مثلث ، دائرے، اور دوسری جیومیٹری کی اشکال ہیں ، جن کے بغیر انسانی دماغ ایک لفظ بھی نہیں پڑھ سکتا۔"

    لیکن اکثر ریاضی دان خود کو تمام سائنس دانوں کے مقابلے میں سب سے کم عملی کہہ کر پکارتے ہیں۔ جتنی مبہم اور بیکار ریاضی ہوگی اتنا ہی اچھا ہوگا۔ جس بات نے رینڈل کو اس وقت ایک الگ راہ چننے پر لگایا جب وہ ١٩٨٠ء کی دہائی کی ابتدا میں ہارورڈ میں سند حاصل کر رہی تھی وہ یہ حقیقت تھی کہ اس کو اس خیال سے محبت تھی کہ طبیعیات کائنات کے نمونے بنا سکتی ہے۔ ہم طبیعیات دان جب پہلی مرتبہ کسی نظریئے کو پیش کرتے ہیں، تو وہ صرف مساوات کے گچھے پر ہی مشتمل نہیں ہوتی۔ نئی طبیعیاتی نظریات کی بنیاد عام طور پر سادہ مثالی نمونوں پر رکھی جاتی ہے جو کسی مظاہر کے قریب ہوں۔ یہ نمونے عام طور پر سمجھنے کے لئے ترسیمی، تصویری اور سادے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوارک کے نمونے کی بنیاد اس خیال پر ہے کہ پروٹون کے اندر تین چھوٹے جز ہوتے ہیں جن کو کوارک کہتے ہیں۔ رینڈل اس بات سے کافی متاثر تھی کہ سادے نمونے جن کی اساس طبیعی تصاویر پر ہوتی ہے وہ صحیح طور پر کائنات کی زیادہ تر چیزوں کو بیان کر سکتے ہیں۔

    ١٩٩٠ء میں اس نے ایم نظریئے میں دلچسپی لینی شروع کی یعنی کہ جس میں کہا جاتا ہے کہ تمام کائنات ممکنہ طور پر ایک جھلی ہے۔ اس نے شاید قوّت ثقل کے سب سے حیرت انگیز خاصیت کی طرف بڑھنا شروع کیا یعنی کہ اس کی قوّت فلکیاتی پیمانے پر کم تر ہے۔ نہ تو نیوٹن اور نہ ہی آئن سٹائن نے اس بنیادی پراسرار سوال کا پتہ لگانے کی کوشش کی۔ کائنات کی دیگر تینوں قوّتیں (برقی مقناطیسی، کمزور نیوکلیائی قوّت، اور مضبوط نیوکلیائی قوّت ) یہ تمام کی تمام ایک جیسی ہی طاقت رکھتی ہیں، جبکہ قوّت ثقل ان سے بہت زیادہ مختلف ہے۔

    خاص طور پر کوارک کی کمیت اس سے کہیں زیادہ کم ہے جو کمیت کوانٹم قوّت ثقل کے ساتھ نسبت رکھتی ہے۔ " اختلاف چھوٹا نہیں ہے دونوں کمیت کے پیمانے میں ١٠١٦ کا فرق ہے! صرف وہ نظریات جو اس جسیم نسبت کو بیان کر سکیں وہ ممکنہ طور پر وہی امید وار نظریئے ہیں جو معیاری نمونے کے نیچے ہیں۔" رینڈل کہتی ہیں۔

    یہ حقیقت کہ قوّت ثقل اتنی کمزور کیوں ہے ستاروں کے بڑے ہونے کی توجیح پیش کرتی ہے۔ زمین اپنے سمندروں، پہاڑوں، اور بر اعظموں کے ساتھ اس وقت جب سورج کے حجم سے مقابل ہو تو اس کی حیثیت ریت کے ڈھیر سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ لیکن کیونکہ قوّت ثقل اتنی کمزور ہوتی ہے، لہٰذا یہ پورے ستارے کی کمیت کو لے کر ہی ہائیڈروجن کو اتنا دبا پاتی ہے کہ وہ پروٹون کی برقی قوّت دھکیل پر غالب آ جائے۔ لہٰذا ستارے اس لئے ضخیم ہوتے ہیں کیونکہ قوّت ثقل دوسری قوّتوں کے مقابل کافی کمزور ہوتی ہے۔

    ایم نظریئے نے طبیعیات میں کافی ہیجان برپا کیا ہوا ہے، کافی جماعتوں نے کوشش کی کہ اس نظریئے کو کائنات پر لاگو کر کے دیکھیں۔ یہ بات فرض کرکے کہ کائنات ایک تین برین والی تیرتی ہوئی پنچ جہتی دنیا ہے۔ تو اس وقت تین برین کی سطح کے ارتعاش بمطابق جوہروں کے ہم اپنے ارد گرد دیکھ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ تھرتھراہٹ کبھی بھی اس تین برین کو نہیں چھوڑیں گی پس یہ کبھی بھی پانچویں جہت میں نہیں ڈوبیں گی۔ اگر ہماری کائنات پانچویں جہت میں بھی تیر رہی ہوگی تب بھی ہمارے جوہر ہماری کائنات کو نہیں چھوڑیں گے کیونکہ یہ اصل میں تین برین کی سطح کی تھرتھراہٹ ہی ہیں۔ یہ کلازا اور آئن سٹائن کے اس سوال کا جواب دے سکتا ہے جو انہوں نے ١٩٢١ء میں اٹھایا تھا۔ پانچویں جہت کہاں ہے؟ جواب ہے ہم پانچویں جہت میں تیر رہے ہیں لیکن ہم اس میں داخل نہیں ہو سکتے کیونکہ ہمارے جسم تین برین کی سطح سے چپکے ہوئے ہیں۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: لیزا رینڈل - حصّہ اوّل Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top