Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 8 جولائی، 2016

    روشنی اور حر حرکیات

    روشنی اور حر حرکیات (Light and thermodynamics)


    بلند درجہ حرارت پر روشنی اور حر حرکیات میں ناکارگی کم ہوتی ہے، اور اس سے آسانی کے ساتھ کوئی بھی کارآمد کام کیا جا سکتا ہے۔ کم درجہ حرارت پر توانائی میں ناکارگی زیادہ ہوتی ہے اور اس سے آسانی سے کام نہیں لیا جا سکتا۔ یہ بات سمجھنے میں سیدھی ہے کیونکہ توانائی کا بہاؤ گرم چیزوں سے ٹھنڈی چیزوں کی جانب ہوتا ہے، اور ٹھنڈی جگہوں کو سورج جیسی سطح ڈھونڈھنے کے مقابلے میں کافی آسان ہے، سورج سے نکلتی ہوئی توانائی راستے میں بہتے ہوئے اپنا کام کرتی ہے۔ مثال کے طور پر برف کے مکعب جیسا کوئی جسم تلاش کرکے اس سے توانائی کو کشید کرکے کام میں لانا ایک مشکل امر ہے۔ زمین پر تو زیادہ گمان یہی ہے کہ حرارت برف کے ٹکڑے کی سمت بہے گی۔ خلاء میں چیزیں کچھ الگ ہوتی ہیں جہاں زمین کی سطح سے کہیں زیادہ ٹھنڈ ہوتی ہے۔ 0 سینٹی گریڈ پر بھی برف کا ٹکرا اپنے اندر کچھ کام کی توانائی رکھ سکتا ہے جس کو کشید کر ان حالات میں کام میں لیا جا سکتا ہے۔ تاہم پھر بھی ایک اس کی ایک حد ہے یعنی کہ مطلق صفر درجہ حرارت، کیلون کے پیمانے پر 0، اس پیمانے کا نام بھی ایک اور حر حرکیات کے بانی کے نام پر رکھا گیا تھا۔ کوئی بھی جسم 0 کیلون درجہ حرارت پر کسی بھی قسم کی حرارت کو نہیں رکھ سکے گا۔

    خلاء بذات خود اتنی ٹھنڈی نہیں ہے کہ اس کا درجہ حرارت 0 کیلون ہو۔ ستاروں کے درمیان خلاء میں برقی مقناطیسی اشعاع یا فوٹون کی صورت میں توانائی موجود ہے۔ ان فوٹون کی توانائی کو درجہ حرارت میں بیان کیا جا سکتا ہے - سورج کی روشنی میں توانا، بلند درجہ حرارت کے فوٹون شامل ہوتے ہیں، جبکہ ہمارے جسم سے نکلنے والی حرارت پست توانائی کی صورت ہوتی ہے جو فوٹون سے کہیں زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہے۔ جیسے کہ ہم آگے دیکھیں گے کہ 1960ء میں تجرباتی سائنس کی سب سے عظیم دریافت میں ریڈیائی ماہرین فلکیات نے ایک کمزور ریڈیائی شور کو دیکھا جو خلاء میں ہر سمت سے آ رہا تھا۔ انہوں نے اسے کائناتی پس منظر کی اشعاع کا نام دیا؛ ہماری ریڈیائی دوربینوں سے درج ہونے والا شور فوٹون کے سمندر سے پیدا ہونے والا تھا جس کا درجہ حرارت صرف 3 کیلون تھا جس نے پوری کائنات کو اپنے آپ سے لبریز کیا ہوا تھا۔

    جیسا کہ میں باب 6 میں مزید وضاحت کروں گا یہ دریافت وہ اکیلی حقیقت تھی جس نے ماہرین تکوینیات کو قائل کرلیا کہ عظیم دھماکے کا نظریہ اس کائنات کی اچھی توضیح ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ دور دراز کی کہکشاؤں کا مطالعہ پہلے ہی بتا چکا ہے کہ کائنات آج بھی پھیل رہی ہے، جہاں وقت گزرنے کے ساتھ کہکشاؤں کے جھرمٹ ایک دوسرے سے مزید دور ہو رہے ہیں۔ اس عمل کا تصور کرتے ہوئے جب وقت کے دھارے کو لپیٹتے ہیں تو کچھ نظریاتی دلیل دیتے ہیں کہ کائنات کو لازمی طور پر ایک فوق کثیف، فوق گرم حالت یعنی کہ عظیم دھماکے کی گیند کی صورت میں پیدا ہونا چاہئے۔ تاہم اس نظریئے کو قبولیت عام کا درجہ اس وقت تک نہیں ملا جب تک پس منظر کی اشعاع کی دریافت نہیں ہوئی، ان اشعاع کو دریافت ہونے کے فوری بعد ہی عظیم دھماکے کی گیند سے بچ جانے والی کھرچن کہا گیا۔ 

    اب کائنات کی پیدائش کے معیاری تصور میں عظیم دھماکے کے دوران کائنات خود بہت ہی گرم فوٹون سے بھری ہوئی تھی، یہ فوٹون بلند توانا اشعاع کا سمندر تھا۔ جب کائنات نے پھیلنا شروع کیا تو یہ اشعاع ٹھنڈی ہونی شروع ہوئی، بعینہ اسی طرح جیسے کہ گیس کو جب کسی بڑے علاقے میں چھوڑ دیا جاتا ہے تو وہ ٹھنڈی ہو جاتی ہے (یہی وہ بنیادی عمل ہے جو آپ کے فرج کے اندر کام کرکے اس کو ٹھنڈا رکھتا ہے)۔ جب گیس کو دبایا جاتا ہے، تو وہ گرم ہو جاتی ہے - آپ اس عمل کے کام کرنے کو اس وقت محسوس کر سکتے ہیں جب آپ اپنی بائیسکل کے پمپ کو استعمال کرتے ہیں۔ جب گیس پھیلتی ہے تو وہ ٹھنڈی ہوتی ہے۔ اور یہی قاعدہ اس وقت نافذ ہوگا جب 'گیس' حقیقت میں فوٹون کا سمندر ہو۔ 

    اس دوران جب عظیم دھماکا آگ کی گیند کی صورت تھا، تو آسمان پوری کائنات میں جلتی ہوئی روشنی کے ساتھ جگمگا رہا تھا، تاہم پھیلاؤ نے اشعاع کو ٹھنڈا کرکے 3 کیلون درجہ حرارت تک گرا دیا تھا ( یہی پھیلاؤ کا اثر ستاروں کی روشنی کو کمزور کرتا ہے، تاہم یہ اتنا نہیں ہے کہ آسمان کی سیاہی کو بیان کر سکے بشرطیکہ کہ کائنات لامحدود عمر کی ہے۔ کائنات میں موجود عام مادّہ بہت ہی کم مقدار میں ہے جبکہ ستاروں اور کہکشاؤں کے درمیان خلاء کی جگہ بہت ہی زیادہ وسیع ہے۔ کائنات میں فوٹون کی تعداد پوری کائنات میں موجود جوہروں سے کہیں زیادہ ہے، اور کائنات کی زیادہ تر ناکارگی پس منظر کی اشعاع کے ان سرد فوٹون کے اندر ہی موجود ہے۔ کیونکہ یہ فوٹون بہت زیادہ سرد ہیں، لہٰذا ان کی ناکارگی کافی زیادہ ہے، اور آج ستاروں سے نکلنے والی نسبتاً کم تعداد اس ناکارگی کو زیادہ نہیں بڑھائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات کی گرم موت پہلے ہی عظیم دھماکے کی کونیاتی آگ کی گیند سے آج کے رات کے سیاہ آسمان میں بدلنے سے واقع ہو چکی ہے، ہم ایک ایسی کائنات میں رہتے ہیں جو شاید پہلے ہی ناکارگی کی آخری حد کو پہنچ چکی ہے، اور سورج کی صورت میں چھوٹا ناکارگی کا بلبلہ مخصوص بلبلے سے کہیں زیادہ دور ہے۔ 

    کائنات کا پھیلاؤ ہمیں وقت کی سمت بھی دیتا ہے - جو اب بھی اسی سمت کی طرف اشارہ کرتا ہے - گرم ماضی سے ٹھنڈے مستقبل کی طرف۔ تاہم ان تمام باتوں کے برخلاف ایک انتہائی عجیب چیز بھی موجود ہے۔ وقت کی سمت، تبدیلی و انحطاط بحیثیت مجموعی کائنات اور زمین پر نظر آنے والی ہر چیز کا بنیادی خاصہ ہے - اس کو طبیعیات دان پیمانہ کبیر کہتے ہیں۔ تاہم جب ہم بہت ہی صغیر جہاں، جوہری اور ذرّاتی پیمانے پر دیکھتے ہیں (جس کو طبیعیات دان خرد بینی جہاں کہتے ہیں، ہم ان چیزوں کی بات کر رہے ہیں جو اس قدر چھوٹی ہوتی ہیں کہ خردبین سے بھی نظر نہیں آتیں)، تو قوانین طبیعیات میں بنیادی وقت کے عدم تشاکل کا کوئی نشان نہیں دیکھتے ہیں۔ یہ قوانین وقت کے ماضی و مستقبل اور ہر سمت میں اچھی طرح 'کام' کرتے ہیں۔ اس کو کس طرح وقت کے بہنے کی واضح حقیقت کے ساتھ اور چیزوں کی فرسودگی کے ساتھ جہاں صغیر میں موافق بنایا جائے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: روشنی اور حر حرکیات Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top