Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 1 جولائی، 2016

    بشری اصول


    مذکورہ بالا دلائل کو دوبارہ سے بشری اصول میں یکجا کیا جا سکتا ہے۔ اس بارے میں کافی مختلف آرا ہیں جو اس متنازعہ بشری اصول پر موجود ہیں۔ میری دوسری جماعت کی معلمہ کے مطابق ان خوش گمان حادثوں کا مطلب ایک عظیم تخلیق یا منصوبہ ہے۔ جیسا کہ طبیعیات دان فری مین ڈیسن نے ایک مرتبہ کہا تھا، " ایسا لگتا ہے جیسے کہ کائنات کو معلوم تھا کہ ہم آرہے ہیں۔" یہ اصول بشری کی ایک مضبوط مثال ہے، یعنی کہ یہ خیال کہ طبیعیاتی مستقلات کی اس قدر موزونیت اصل میں کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔(کمزور بشری اصول کا سادہ مطلب یہ ہے کہ کائنات کے طبیعیاتی مستقلات اس طرح کے ہیں جنہوں نے حیات و شعور کی تخلیق کو ممکن بنایا۔) 


    طبیعیات دان ڈان پیج بشری اصول کی برسوں میں پیش کی جانے والی بہت سی صورتوں کا خلاصہ کرتے ہیں:

    کمزور بشری اصول:" ہم کائنات کے متعلق جو مشاہدہ کرتے ہیں وہ بطور شاہد ہمارے وجود سے پابند ہے۔"

    مضبوط کمزور بشری اصول: " کم از کم ایک جہاں میں ۔۔۔ کثیر جہانوں کی کائنات میں ، حیات کو لازمی طور پر نمو پانا تھا۔"

    مضبوط بشری اصول ، "کائنات میں لازمی طور پر کسی وقت میں حیات کے نمو کی خاصیت ہونا ضروری ہے۔"

    حتمی بشری اصول: "شعور کو کائنات میں لازمی پیدا ہونا ہے اور یہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔"

    ایک طبیعیات دان جو مضبوط بشری اصول کو نہایت سنجیدگی سے لیتی اور دعویٰ کرتی ہیں کہ یہ خدا کے وجود کا اشارہ ہے وہ ویرا کستیاکووسکی ہیں جو ایم آئی ٹی کی طبیعیات دان بھی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، "طبیعیاتی دنیا میں ہماری سائنسی سمجھ بوجھ نے جو ترتیب میں نزاکت کو پایا ہے اس کو خدائی ایزدی کہتے ہیں۔" ایک اور سائنس دان جو ان کے خیال سے متفق ہیں وہ ذرّاتی طبیعیات دان جان پولنگ ہارن ہیں جو کیمبرج یونیورسٹی میں اپنی نوکری کو چھوڑ کر چرچ آف انگلینڈ میں پادری بن گئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ کائنات صرف "کوئی عمر رسیدہ دنیا" نہیں ہے بلکہ یہ خاص اور حیات کے لئے انتہائی موزوں بنائی گئی ہے کیونکہ یہ خالق کی تخلیق کردہ ہے جس کی مرضی سے یہ ایسی ہے۔" اصل میں تو آئزک نیوٹن خود بھی ، جس نے غیر متغیر قوانین کو متعارف کروایا تھا جو سیاروں اور ستاروں کی رہنمائی بغیر کسی ربانی مداخلت کے کرتے ہیں، اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ ان قوانین کی نفاست خدا کے وجود کی گواہی دے رہی ہے۔ 

    لیکن طبیعیات دان اور نوبیل انعام یافتہ اسٹیون وائن برگ اس بات سے قائل نہیں ہیں۔ وہ بشری اصول کے میلان کو تسلیم کرتے ہیں : "اس بات پر یقین رکھنا انسانوں کے لئے انتہائی پرکشش ہے کہ ہمارا کائنات سے ایک خاص رشتہ ہے، انسانی حیات صرف کم و بیش اس مضحکہ خیز پے در پے حادثات کا نتیجہ نہیں ہے جو بگ بینگ کے پہلے تین منٹوں سے شروع ہوتے ہیں، بلکہ ہماری تخلیق تو ابتداء ہی سے کر لی گئی تھی۔" بہرحال یہ نتیجہ اخذ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں مضبوط بشری اصول " پراسرار باطل معبود سے تھوڑا زیادہ" ہے ۔

    دوسرے بشری اصول کی طاقت سے کچھ زیادہ متاثر نہیں ہیں۔ آنجہانی طبیعیات دان ہینز پجیلز شروع میں بشری اصول سے متاثر تھے لیکن بالآخر اس میں ان کی دلچسپی ختم ہو گئی تھی کیونکہ اس کی کوئی قابل پیشن گوئی طاقت نہیں ہے۔ نظریہ نہ تو قابل جانچ ہے اور نہ ہی کوئی ایسا طریقہ موجود ہے جو اس سے نئے اطلاعات کو حاصل کر سکے۔ اس کے بجائے یہ ہمیں خالی خولی تکرار کا سمندر بہاتا ہوا نظر آتا ہے۔ یعنی کہ ہم یہاں اس لئے ہیں کہ ہم یہاں ہیں۔

    گتھ بھی بشری اصول کو رد کرتے ہیں ،وہ کہتے ہیں ، "مجھے اس بات پر یقین کرنا کافی مشکل ہوتا ہے کہ کوئی بھی کبھی بھی بشری اصول کو اس وقت استعمال کر سکے گا اگر اس کے پاس اس سے کوئی بہتر توجیح ہو۔ مجھے اب بھی اس مثال کو سننا ہے کہ دنیا کی ایک بشری اصول کی تاریخ ہے ۔۔۔ بشری اصول ایک ایسی چیز ہے جس پر لوگ اس لئے یقین رکھتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے بہتر وہ نہیں سوچ سکتے۔"
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: بشری اصول Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top