Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 5 اکتوبر، 2016

    آئن سٹائن کے نظریات - حصّہ چہارم



    ان تمام باتوں کا روشنی سے کیا لینا دینا ہے؟ واپس اس تجربہ گاہ میں چلیں جس کو خلاء میں ایک مستقل قوت سے دھکیلا جا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اندر طبیعیات دان فیصلہ کریں کہ کچھ روشنی سے متعلق تجربات کئے جائیں۔ وہ روشنی کی ایک کرن بناتے ہیں تاکہ وہ تجربہ گاہ کے ایک طرف سے شروع ہو کر اس کو پار کرتی ہوئی دوسری طرف نکل جائے۔ اب روشنی لازمی طور پر تجربہ گاہ کو پار کرنے کے لئے ایک مخصوص وقت لے گی، اور اس وقت کے دوران تجربہ گاہ اوپر کی طرف اسراع پذیر ہو رہی ہو گی، لہٰذا دیوار روشنی کی کرن کے پہنچنے سے پہلے تھوڑا سا اوپر ہو چکی ہو گی۔ اصولی طور پر طبیعیات دان اس دیوار کی پیمائش کر سکتے ہیں جہاں پر روشنی گرتی ہے اور یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ان کی تجربہ گاہ اسراع پذیر ہے۔ بلکہ وہ تو روشنی کی کرن کے خم کو ناپ کر بھی اسراع کی پیمائش کر سکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی ایسا طریقہ موجود ہے جو قوّت ثقل کو اسراع سے الگ کر سکے۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے، آئن سٹائن کہتا ہے۔ ہمیں اس تصور کو بحال رکھنا ہو گا کہ قوّت ثقل اور اسراع اس وقت تک ایک دوسرے کے برابر ہیں جب تک اس کے برخلاف ثابت نہ ہو جائے۔ اگر روشنی کی کرن ایک اسراع پذیر حوالاتی جگہ میں خم کھا رہی ہو گی تو اگر نظریہ درست ہے تو یہ قوّت ثقل کی وجہ سے خم کھائی ہو گی اور اسی اور اتنی ہی مقدار سے۔ 

    مساوات کا یہ اصول 1911ء کے مقالے کی درست بصیرت کا دل ہے۔ بدقسمتی سے خم کے حجم کے اثر کا حساب غلط ہے، لیکن اس کو چھوڑ دیں۔ اگلے چار برسوں میں آئن سٹائن نے ان خیالات کو ایک مکمل اور جامع عمومی نظریہ اضافیت کا روپ دیا، اور یہ مکمل نظریہ پیش گوئی کرتا تھا کہ روشنی قوّت ثقل کی وجہ سے خمیدہ ہو سکتی ہے، حقیقت میں خمیدگی کی مقدار کا حساب 1911ء میں لگا لیا گیا۔ روشنی کس طرح سے خمیدہ ہوتی ہے اس کا تصور کرنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ قوت اور خلاء کے بارے میں اپنے پہلے سے موجود تصورات سے جان چھڑائی جائے، اور ان خیالات کو لیا جائے جن کو آئن سٹائن نے پہلے 1915ء میں اور پھر مکمل طور پر 1916ء میں پیش کئے۔ یہ تصورات بتاتے ہیں کہ ہم خالی جگہ کے بارے میں روزمرہ میں کیسا سوچتے ہیں جو لگ بھگ ایک حقیقی جگہ کے ہے، جو چار جہتوں کا تسلسل ہیں (خلاء کے تین اور وقت کا ایک) جس کو مادّی اجسام کی موجودگی میں خم اور بگاڑا جا سکتا ہے۔ یہ خم دار بگاڑ وہ ہیں جو 'قوت' ثقل مہیا کرتے ہیں۔ 

    ایک لمحے کے لئے مکان و زمان کی چوتھی جہت کے بارے میں بھول جائیں، اور دو جہتی لچک دار سطح کے بارے میں سوچیں۔ ایک ربڑ کی چادر کے بارے میں تصور کریں جو ایک جگہ تن کر کھینچی ہوئی ہے جس سے ایک چپٹی سطح بن گئی ہے۔ یہ آئن سٹائن کے خالی خلاء کا 'نمونہ' تھا۔ اب تصور کریں کہ ایک بھاری گیند اس چادر کے درمیان میں موجود ہے۔ یہ جھک جائے گی۔ یہ آئن سٹائن کے خلاء کا 'نمونہ' ہے جو خلاء کو اس جگہ بگاڑتا ہے جہاں بڑے مادّے کا ٹکڑا موجود ہوتا ہے۔ جب آپ کنچوں کو چپٹی ربڑ کی چادر پر لڑھکاتے ہیں تو وہ سیدھی لکیروں کی صورت میں سفر کرتے ہیں۔ تاہم جب چادر ایک گیند کی وجہ سے بگڑتی ہے تو کوئی بھی کنچا جو گیند کے قریب ہو گا وہ دبی ہوئی ربڑ کی چادر کے قریب خم زدہ ہو کر گرے گا۔ آئن سٹائن حقیقت میں کہتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں 'قوت' ثقل کام کرتی ہے۔ یہاں پر کوئی حقیقی قوت نہیں ہے۔ اجسام وہ راستہ اختیار کرتے ہیں جہاں کم سے کم مزاحمت ہوتی ہے، سیدھی لکیر کے برابر، خلاء یا مکان و زمان کے کے خم زدہ حصّے میں سے۔ جسم کوئی کنچا، کوئی سیارہ یا روشنی کی کرن ہو سکتی ہے۔ اثر ایک ہی ہے۔ جب یہ کسی بڑی کمیت کے گرد حرکت کرتا ہے - ثقلی قوت میدان میں سے پرانی تصویر کے مطابق - تو یہ خم کھاتا ہے۔ عمومی اضافیت صحت کے ساتھ پیش گوئی کرتی ہے کہ روشنی کی کرن اس وقت کس قدر خم کھائے گی جب وہ سورج کے پاس سے گزرے گی۔ ریاضی دقیق ہو سکتی ہے اور تصور جیسا کہ خم دار جگہ عجیب ہو سکتی ہے۔ تاہم آئن سٹائن کا عمومی نظریہ ایک واضح اور قابل جانچ پیش گوئی کرتا ہے۔ 1916ء میں یہ اس وقت ظاہر ہوا جب آئن سٹائن جرمنی میں کام کر رہا تھا۔ برطانوی فلکیات دان آرتھر ایڈنگٹن نے نئے نظریے اور اس کی پیشن گوئی کو ہالینڈ میں اپنے ایک رفیق سے سیکھا۔ اور اس جرمن پیشن گوئی کی تصدیق برطانوی مشاہدے سے 1919ء میں ہوئی، جب دونوں ممالک تیکنیکی طور پر حالت جنگ میں تھے اگرچہ دونوں نے عارضی صلح کر لی تھی تاہم امن کے معاہدے پر ابھی تک دستخط نہیں ہوئے تھے۔ ان وجوہات کی وجہ سے جزوی طور پر اس نے وہ مقبول تخیل حاصل کر لیا جسے طبیعیاتی سائنس میں کسی اور دریافت نے نہیں کیا، اس کا مقابلے صرف اس بھونچال سے کیا جا سکتا ہے جو پچھلی صدی میں ڈارون کے ارتقاء پر تصورات کی اشاعت سے مچا تھا۔ 

    خاکہ 4.2 وہ طریقہ جس میں کسی جسم کی کمیت اپنے قریبی علاقے میں مکان و زمان کو بگاڑتی ہے اس کا مقابلہ ایک ہموار ربڑ کی چادر سے کیا جا سکتا ہے جس میں ایک بھاری گیند کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہو گیا ہو۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: آئن سٹائن کے نظریات - حصّہ چہارم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top