Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 5 اکتوبر، 2016

    کائنات سے فرار کا چوتھا قدم


    چوتھا قدم: آہستہ حرکت کرتے ہوئے بلیک ہول کی تشکیل

    ایک مرتبہ کھوجیوں کے ذریعہ واقعاتی افق کے قریب کی خصوصیات کا تعین ہو جائے تو اگلا قدم ایک تجرباتی مقصد کے لئے دھیمے سے حرکت کرتے ہوئے بلیک ہول کی تشکیل ہوگی۔ ایک تہذیب سوم کی تہذیب شاید آئن سٹائن کے پیش کئے گئے مقالہ کے نتائج کو دوبارہ پیدا کرنے کی کوشش کرے گی - یعنی کہ بلیک ہول کبھی بھی گھومتی ہوئی دھول اور ذرّات کی قرص سے پیدا نہیں ہو سکتے۔ آئن سٹائن نے کوشش کی تھی کہ وہ ثابت کر سکے کہ ایک گھومتے ہوئے ذرّات کا مجموعہ خود سے کبھی بھی شیوارز چائلڈ کے نصف قطر تک نہیں پہنچ سکے گا ( اور اس طرح سے بلیک ہولز کو بنانا ناممکن ہے)۔

    گھومتی ہوئی کمیت بذات خود بلیک ہول میں شاید نہ سکڑ سکے۔ تاہم یہ بات تب بھی ممکن ہے کہ کوئی مصنوعی طریقے سے نئی توانائی اور مادّہ کو گھومتے ہوئے نظام میں آہستہ آہستہ داخل کرے اور کمیت کو مجبور کر دے کہ وہ شیوارز چائلڈ کے نصف قطر میں داخل ہو جائے۔ اس طرح سے تہذیب منضبط طریقے سے بلیک ہول کو بنا سکے گی۔

    مثال کے طور پر کوئی یہ قیاس کر سکتا ہے کہ جماعت سوم کی تہذیب نیوٹران ستاروں کو جمع کر لے جو لگ بھگ مین ہٹن کے حجم کے ہوں گے تاہم ان کی کمیت ہمارے سورج سے بھی زیادہ ہوگی اور ان مردہ گھومتے ہوئے ستاروں کا مجموعہ بنا لے ۔ قوّت ثقل بتدریج ان ستاروں کو ایک دوسرے کے قریب کرنا شروع کر دے گی۔ تاہم وہ کبھی ہی شیوارز چائلڈ کا نصف قطر حاصل نہیں کر سکیں گے جیسا کہ آئن سٹائن نے ثابت کیا۔ اس نقطے پر پہنچنے کے بعد اس ترقی یافتہ تہذیب کے سائنس دان بہت ہی محتاط طور پر اس مجموعہ میں نیا نیوٹران ستارے کو داخل کریں گے۔ یہ شاید توازن کو بگاڑنے کے لئے کافی ہو اور نیوٹران ستاروں کی گھومتی ہوئی کمیت کو شیوارز چائلڈ کے نصف قطر میں لے آئیں ۔ نتیجتاً ستاروں کا مجموعہ گھومتے ہوئے چھلے - کر بلیک ہول میں منہدم ہو جائے گا۔ مختلف نیوٹران ستاروں کی رفتار اور نصف قطر کو قابو کرتے ہوئے ایسی تہذیب کر کا بلیک ہول بنا لے گی جو اس کی خواہش کے مطابق آہستہ سے کھلے گا۔

    یا ایک جدید تہذیب شاید کوشش کرے کہ چھوٹے نیوٹران ستاروں کو ایک ساکن کمیت میں جمع کر لے تاوقتیکہ وہ حجم میں 3 شمسی کمیت تک نہ پہنچ جائیں جو لگ بھگ چندرا شیکھر نیوٹران ستارے کی حد ہے۔ اس حد کے بعد ستارہ خود سے اپنی قوّت ثقل کے زیر اثر بلیک ہول میں تبدیل ہو جائے گا۔ (ایک جدید تہذیب کو کافی احتیاط کرنی ہوگی تاکہ بلیک ہول بنانے کی کوشش میں وہ کہیں سپرنووا کی طرح پھٹ نہ جائے۔ بلیک ہول کو بنانے کے لئے ستارے کو بتدریج اور انتہائی درست طریقے سے سکیڑنا ہوگا۔)

    بلاشبہ واقعاتی افق سے گزرنے والے کسی چیز کے لئے یہ لازمی طور پر یک طرفہ سفر ہوگا۔ تاہم ایک جدید تہذیب جو معدومیت کا سامنا کرنے جا رہی ہوگی اس کے لئے یک طرفہ سفر ہی شاید واحد حل ہوگا۔ ہنوز جب کوئی واقعاتی افق کے پاس سے گزرے گا تو شعاعوں کا مسئلہ اپنی جگہ موجود رہے گا۔ روشنی کی کرنیں جو واقعاتی افق میں ہمارے ساتھ ہوں گی وہ مزید طاقتور ہو جائیں گی کیونکہ ان کا تعدد ارتعاش بڑھ جائے گا۔ اس کی وجہ سے اشعاع کی بارش ہوگی جو کسی بھی خلا نورد کے لئے مہلک ثابت ہوگی جو واقعاتی افق سے گزرنے کی کوشش کرے گا۔ کسی بھی جدید تہذیب کو اس طرح کی شعاعوں کا انتہائی درستگی کے ساتھ حساب لگانا ہوگا اور ان سے بھننے سے بچنے کے لئے مناسب حفاظتی انتظام کرنا ہوگا۔

    آخری مسئلہ استحکام حاصل کرنے کا ہوگا۔ 'کر' چھلے کے مرکز میں موجود بلیک ہول اتنے مستحکم ہوں گے کہ ان میں سے آسانی سے گزرا جا سکے؟ سوال ریاضیاتی طور پر مکمل واضح نہیں ہے ، کیونکہ ہمیں کوانٹم ثقلی نظریئے کا استعمال مناسب حساب لگانے کے لئے کرنا ہوگا۔ ایسا معلوم ہوا ہے کہ کر چھلا مخصوص پابند شرائط کے ساتھ اس وقت مستحکم ہو سکتا ہے جب مادّہ ثقب کرم میں گرے۔ اس مسئلہ کو احتیاط کے ساتھ کوانٹم ثقلی ریاضی اور بلیک ہول پر کئے جانے والے تجربات سے حل کرنا ہوگا۔

    مختصراً بلیک ہول میں سے گزرنا بلاشبہ انتہائی مشکل اور جان جوکھم میں ڈالنے والا سفر ہے۔ نظری طور پر اس کو اس وقت تک رد نہیں کیا جا سکتا تاوقتیکہ جامع تجربات کئے جائیں اور مناسب طور پر تمام کوانٹم تصحیحات کا حساب لگایا جائے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: کائنات سے فرار کا چوتھا قدم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top