Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    ہفتہ، 1 اکتوبر، 2016

    اگر مشتری بے رنگ گیسوں سے بنا ہے اور خود سے جلتا بھی نہیں تو ہمیں کرہ کی شکل میں کیسے دکھائی دیتا ہے؟

    اگر مشتری گیسوں سے بنا ہے تو اس کے کنارے کیوں ہیں ؟


    چن یہ، کیمیا دان 

     اس سوال کے کئی رخ ہیں۔ سب سے پہلے یہ جان لیں کہ مشتری 90 فیصد ہائیڈروجن اور 10 فیصد ہیلیئم سے بنا ہے، اور یہ دونوں گیسیں بے رنگ ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ زمین پر ہم کس طرح سے ایک ایسے سیارے کو دیکھتے ہیں جو بے رنگ مادے سے مل کر بنا ہے؟ یہ معلوم ہوا ہے کہ مشتری کی کرۂ ارض کی طرح اصل سطح نہیں ہے تاہم اس کی بصری سطح ضرور موجود ہے۔ سوال پھر یہی آتا ہے کہ بصری سطح کس طرح سے بن سکتی ہے؟ ہائیڈروجن اور ہیلیئم کے علاوہ، مشتری میں تھوڑی سی امونیا اور امونیم ہائیڈروسلفائڈ کی مقدار بھی ہے۔ یہ وہ سالمات کی باقیات ہیں جو روشنی کے ساتھ متعامل ہوتی ہیں اور مشتری کی بصری سطح کو بناتی ہیں۔ سورج کی روشنی میں، امونیم ہائیڈرو سلفائڈ گندھک کو پیدا کرتی ہیں جس کا رنگ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کنارے اور پیلے /سرخ رنگ کو دیکھتے ہیں۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے، ہم نمونے بھی دیکھتے ہیں، جیسا کہ 'سرخ نگاہ بد'۔ بالفاظ دیگر، زمین کی طرح، مشتری کے بادل ہوتے ہیں اور ان کا رنگ پیلا ہوتا ہے۔ زمین کے بادل پانی کے قطروں اور برف کی قلموں سے بنتے ہیں جبکہ مشتری کے امونیا سے۔ (دوسرے 1 کروڑ معلومہ کیمیائی مرکبات سے زائد  کے درمیان میں امونیا پانی سے سب سے زیادہ قریب ہے۔) زمین کے برعکس، مشتری کے بادل مستقل، 24 گھنٹے اور ہفتے کے سات دن باقی رہنے والے اور جسیم ہوتے ہیں۔ کتنے بڑے؟ اتنے کہ وہ پورے سیارے کو ڈھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم کیوں مشتری اور اس کے پیلے رنگ کے پار دیکھ نہیں سکتے۔ 

     اس سوال سے ایک اور سوال اٹھتا ہے۔ اگر صرف بادل ہماری نظر میں رکاوٹ ڈالتے ہیں، تو کیا ہم کوئی خلائی جہاز اس میں سے ایک طرف سے داخل کر کے دوسری طرف سے نکال سکتے ہیں؟ گرم علاقوں میں یہ بادل پٹیاں بناتے ہیں۔ پٹیوں کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ جس طرح سے انسانی سماج میں ہوتا ہے، فرق رگڑ کو پیدا کرتا ہے، جس کا مطلب طوفان اور شورش ہوتی ہے۔ اس کے نتیجتے میں یہاں ہوا کے چلنے کی رفتار 360 کلومیٹر فی گھنٹہ عام سی بات ہے۔ ان مستقل جسیم طوفانوں کے آگے کینساس کے بگولے تو بونے ہیں۔ تصویر میں دکھایا جانے والا 'سرخ بد نظر' ان میں سے ایک ہے۔ اس کا حجم متاثر کن ہے : پوری زمین کے مقابلے میں 2 تا 3 گنا بڑا ہے، اور یہ یہاں ہر وقت سال بہ سال رہتا ہے۔ اس بات کو تو چھوڑ ہی دیجئے کہ وہ اس گیسی سیارے کے اندر سے کہیں گزرے انسان بردار کوئی بھی جہاز اس طرح کے طوفان میں ایک سیکنڈ کے لئے بھی باقی نہیں رہے گا۔ ہم مشتری میں کوئی سوراخ بھی نہیں کر سکتے۔

     مہم جوئی کہہ سکتی ہے کہ اگر ہم کوئی سپر خلائی جہاز بنا لیں جو شورش کے خلاف مزاحمت کر سکتا ہو تو کیا ہو گا؟ اندر جو چیز منتظر ہے وہ خوفناک ہے: جلا دینے والا درجہ حرارت اور بھینچ کر رکھ دینے والا دباؤ۔ یہ زمین کے اندر  موجود قلب سے بھی بدتر ہے۔ مزید براں اگر آپ نے اس کے قلب میں جانے کی جسارت کر بھی لی، تو ہائیڈروجن وہاں دھاتی بن جاتی ہے، اس کا جو بھی مطلب ہو۔ مشتری حکمرانی کرتا ہے۔ جس نے بھی مشتری کو نام دیا تھا وہ واقعی جوہر قابل تھا۔ 
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: اگر مشتری بے رنگ گیسوں سے بنا ہے اور خود سے جلتا بھی نہیں تو ہمیں کرہ کی شکل میں کیسے دکھائی دیتا ہے؟ Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top