Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    اتوار، 2 اکتوبر، 2016

    لذت کا احساس کیوں ہوتا ہے؟

    ہمین لذت کا احساس کیوں ہوتا ہے اور نشہ انسان کے دماغ پہ کیسے اثر انداز ہوتا ہے
    ترجمہ : قدیر قریشی
    آواز: زرتاشہ قریشی
    ایڈٹنگ: اختر علی شاھ

    پیشکش: سائنس کی دنیا پراجیکٹس

    دماغ ہمارے وجود کا مرکز ہے – ہم جو چیز بھی محسوس کرتے ہیں اور جو کام بھی کرتے ہیں وہ دماغ کی بدولت ہی ممکن ہے – یہ باہر کی دنیا سے آنے والے احساسات مثلاً کھانے کی خوشبو اور جسم کے اندر پیدا ہونے والی معلومات مثلاً بھوک کے احساس کو پراسیس کرتا ہے - 

    T-0.31 ان معلومات کو پراسیس کرکے دماغ اس کا مناسب ردِ عمل تجویز کرتا ہے یعنی جسم میں وہ حرکات پیدا کرتا ہے جو ہمیں کامیابی سے زندہ رکھنے میں مددگار ہوتی ہیں – مثال کے طور پر بھوک لگنے پر کھانا تلاش کرنا 

    T-0.47 دماغ کی گہرائیوں میں ایک حصہ ہے جسے limbic system کہا جاتا ہے اور جو دماغ کی سطحی پرتوں یعنی cortex کے نیچے واقع ہے – ارتقاء کے حوالے سے cortex کی نسبت یہ limbic system بہت پرانا ہے – limbic system کا ایک حصہ hippocampus کہلاتا ہے جو ہماری یادوں کو محفوظ کرنے اور سیکھنے میں معاون ہوتا ہے – Amygdala جذبات پیدا کرتا ہے – striatum ایسی عادتیں بنانے میں مدد دیتا ہے جنہیں ہم بغیر سوچے سمجھے سرانجام دے سکتے ہیں – اس کے علاوہ یہ دماغ میں انعام کے نظام کا حصہ بھی ہے – limbic system دماغ میں انعام کا نظام بھی قائم کرتا ہے جو دماغ کے کئی حصوں کو آُپس میں ملاتا ہے اور یہ سب حصے مل کر ہم میں لذت کا احساس پیدا کرتے ہیں – ہم مجبور ہوجاتے ہیں کہ وہ کام بار بار کریں جنہیں کرنے سے یہ لذت کا احساس پیدا ہوتا ہے– ان میں خوش ذائقا کھانا اور ایسے دوسرے کام شامل ہیں جو ہماری بقاء کے لیے اہم ہیں – 

    T-1.41 انعام یا انعام سے متعلقہ چیزیں دماغ کے درمیانی حصے کو فعال بناتی ہیں جسے (VTA) ventral tegmental area کہتے ہیں – یوں اس انعام کے نظام میں ایک مسلسل تعامل (chain reaction) شروع ہوتا ہے – اس حصے سے نکلنے والے لمبے ریشے دماغ کے ایک دوسرے حصے میں پہنچتے ہیں جسےventral straitum (VS) کہا جاتا ہے – جب VS میں موجود Nucleus Accumbens کے نیورونز ان ریشوں کی فائرنگ کی بدولت کام کرنا شروع کرتے ہیں تو ہمیں لذت محسوس ہوتی ہے - Nucleus Accumbens کو عام طور پر دماغ میں لذت کا مرکز کہا جاتا ہے – جب اس حصے میں موجود نیورونز کام کرنا شروع کرتے ہیں تو ہر نیورون ایک برقی سگنل پیدا کرتا ہے جس کے نتیجے میں ایسے مالیکولز خارج ہوتے ہیں جنہیں نیوروٹرانسمٹر کہا جاتا ہے اور جو کیمیائی پیغام رساں کے طور پر کام کرتے ہیں 

    T-2.32 یہ کیمیائی پیغامات دوسرے نیورونز وصول کرتے ہیں – اس طرح ایک نیوروسرکٹ کے مختلف نیورونز ایک دوسرے سے پیغامات کا تبادلہ کرتے ہیں – دماغ میں کئی قسم کے نیوروٹرانسمٹرز ہوتے ہیں جن کے ذمہ مختلف کام سرانجام دینا ہے – پیغام بھیجنے والے اور پیغام وصول کرنے والے نیورون کے درمیان کچھ فاصلہ ہوتا ہے جسے synapse کہا جاتا ہے – جو نیورون پیغام بھیچ رہا ہو اسے presynaptic کہا جاتا ہے اور جو پیغام وصول کر رہا ہو اسےpostsynaptic کہتے ہیں - presynaptic خلیے میں برقی سگنل کی موجودگی کی وجہ سے کیمیائی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں 

    T-3.07 نیوروٹرانسمٹر مالیکیولز کچھ پیکٹس میں مقید ہوتے ہیں – برقی سگنلز کی وجہ سے یہ پیکٹ خلیے کی جھلی کے پاس پہنچ جاتے ہیں جہاں یہ پیکٹ کھلتے ہیں اور نیوروٹرانسمٹر مالیکیولز synapse میں آزاد ہوجاتے ہیں – دماغ کے انعام کے نظام میں ان نیورو ٹرانسمٹرز کو dopamine کہا جاتا ہے –dopamine کے مالیکیولز synapse میں حرکت کرتے ہوئے اگلے نیورون کی جھلی میں موجود dopamine receptors سے جاملتے ہیں – یہ ریسیپٹرزpostsynaptic نیورون کی جھلی پر جگہ جگہ موجود ہوتے ہیں اور ان کا آدھا حصہ نیورون کے باہر ہوتا ہے اور آدھا نیورون کے اندر – 

    T-3.44 جب ڈوپامین مالیکیول اس ریسپٹر کے بیرونی حصے سے ملتا ہے تو تالے میں چابی کی طرح فٹ ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں postsynapticنیورون میں بہت سی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں - جب اس میں ڈوپامین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے تو کچھ پروٹٰین جو ان ریسیپٹرز کے اندرونی حصے سے جڑی ہوتی ہیں اس سگنل کو نیورون کے مرکز تک پہنچا دیتی ہیں – اس دوران ڈوپامین کے مالیکیول اپنا کام مکمل کرکے فارغ ہوچکے ہوتے ہیں – ان میں سے کچھ مالیکیولز dopamine transporter نامی پروٹین کے ذریعے presynaptic نیورون میں واپس جاکر دوبارہ پیکٹس میں چلے جاتے ہیں جہاں سے انہیں دوبارہ چھوڑا جاسکتا ہے 

    T-4.23 ایک صحت مند دماغ میں اگر انعامی نظام فعال نہ ہو تو بھی synapses کے درمیان کچھ مقدار میں ڈوپامین موجود رہتی ہے – جب انعامی نظام کام شروع کرتا ہے (مثلاً جب ہم کھانا کھاتے ہیں) تو presynaptic نیورون ڈوپامین کو بہت زیادہ مقدار میں خارج کرتا ہے - dopamine transporter اس اضافی ڈوپامین کو کچھ دیر بعد واپس presynaptic خلیے میں پہنچا دیتے ہیں اور synapse میں ڈوپامین کی مقدار پہلے جیسی ہوجاتی ہے 

    T-4.55 اس انعام کے نظام میں ڈوپامین کی کمی اور زیادتی سے دماغ دنیا کے پیچیدہ نظام میں جلد یہ سیکھ لیتا ہے کہ اسے اپنی بقاء کے لیے کیا کرنا ہے - ڈوپامین کا نارمل کام دماغ کےVS نامی حصے کے ذمے ہوتا ہے جس کی وجہ سے striatum اور لمبک سیسٹم کے علاقے سرگرمِ عمل ہوتے ہیں – دماغ کے انعام کے نظام کے سرگرم ہونے سے دماغ کے باقی حصوں میں بھی بہت سی تبدیلیاں آتی ہیں – VS کے علاقے سے انعامی نظام کی شاخیں prefrontal cortexتک پہنچتی ہیں جس میں سوچنے، سمجھنے، پلاننگ کرنے اور فیصلے کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے – انعام کا نظام لمبک سیسٹم کے علاوہ دماغ کے ان حصوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے جہاں حسیات اور عضلات کے کنٹرول کی پراسیسنگ ہوتی ہے 

    T-5:40 انعامی نظام کے سرگرم ہونے سے cerebellum پر بھی اثر پڑتا ہے جو کہ دماغ کے پچھلے حصے میں ہوتا ہے اور جہاں سے ہماری حرکات اور ہماری توجہ کو کنٹرول کیا جاتا ہے – انعامی نظام کی نارمل سرگرمی سے دماغ کے تمام حصوں پر اثر پڑتا ہے – اس نظام کی بدولت ایسے محرکات کی موجودگی میں انعام دیا جاتا ہے جو ہماری زندہ رہنے کی بنیادی ضرورتوں مثلاً غذا کی تلاش کو پورا کریں – اس انعام کے نتیجے میں ہم ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں تاکہ ہمیں یہ انعام مل سکے - 

    T-6:12 جب ایک دفعہ دماغ ایسے محرکات کے نتیجے میں انعام جاری کرنے لگے تو اس محرک کو صرف دیکھ لینے سے ہی دماغ کے انعامی نظام میں ڈوپامین کا اخراج ہونے لگتا ہے - جب کوئی شخص پہلی دفعہ کوکین استعمال کرتا ہے تو یہ بہت جلد دماغ تک پہنچ جاتی ہے جہاں پر یہ presynaptic نیورونز کے transporters کو بند کردیتی ہے – چونکہ ڈوپامین اب presynaptic نیورون میں واپس نہیں جاسکتی اس لیے یہ synapse میں جمع ہونے لگتی ہے جس وجہ سے اس کی مقدار نارمل سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور بہت دیر تک زیادہ رہتی ہے – اس وجہ سے postsynaptic نیورون بہت تیزی سے کام کرنے لگتا ہے جس وجہ سے شدید راحت کا احساس پیدا ہوتا ہے – اس وجہ سے دماغ میں کوکین اور لذت کی ایک رفاقت یعنی association بن جاتی ہے جس وجہ سے وہ شخص بار بار کوکین استعمال کرکے اس راحت کا احساس پیدا کرنا چاہتا ہے 

    T-6:55 جب کوئی شخص پہلی بار Methamphetamine استعمال کرتا ہے تو یہ بھی بہت جلد دماغ تک پہنچ جاتی ہے – کم مقدار میں استعمال کرنے سےMethamphetamine کے مالیکیول کوکین کی طرح ڈوپامین کو presynaptic خلیے میں جانے سے روکتے ہیں – لیکن کوکین کے برعکس، اگر Meth کو زیادہ مقدار میں استعمال کیا جائے تو یہ ڈوپامین کی پیداوار کی رفتار کو بھی بڑھا دیتی ہے جس سے synapse میں ڈوپامین کی مقدار بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جہاں یہ ڈوپامین مقید ہوجاتی ہے کیونکہ meth ڈوپامین کو واپس presynaptic خلیے میں جانے سے بھی روک دیتی ہے – کیونکہ اتنی زیادہ مقدار میں ڈوپامین 
    Synapse میں بہت زیادہ دیر تک رہتی ہے اس لیے postsynaptic نیورون کی کارکردگی خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے جس سے اس شخص کو شدید لذت کا احساس ہوتا ہے - اس وجہ سے meth بے انتہا نشہ آور دوا ہے 

    T-7:45 کوکین اور meth کے استعمال کے نتائج انتہائی خطرناک ہوتے ہیں – ان منشیات کے استعمال کی وجہ سے دماغ کے انعام کے نظام کا دماغ کے باقی حصوں سے تعلق مستقل طور پر خراب ہوجاتا ہے جس وجہ سے جذبات، حرکت کرنے، سوچنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت پر اثر پڑتا ہے – ان دواؤں کے مسلسل استعمال سے دماغ کی وائرنگ بگڑ جاتی ہے جس وجہ سے مسلسل استعمال کرنے والا نشئی ان کے استعمال سے وہ راحت محسوس نہیں کر پاتا جو اسے منشیات کے استعمال کے شروع کے دنوں میں محسوس ہوئی تھی – اسے محض اپنے آپ کو نارمل رکھنے کے لیے بھی یہ ادویات استعمال کرنا پڑتی ہیں اور وہ نتائج سے بے پرواہ ہو کر یہ ادویات مسلسل استعمال کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے - اس حالت کو ادویات کی لت پڑ جانا یعنی addiction کہا جاتا ہے - ​


    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: لذت کا احساس کیوں ہوتا ہے؟ Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top