Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    ہفتہ، 22 اکتوبر، 2016

    انسانی سوچ کی قیمت - حصّہ دوم


    امداد باہمی کی صلاحیت نے انسانی معاشرتی قابلیت اور اس کے منفرد سماجی مسائل کے حل کے لئے غیر معمولی کردار ادا کیا۔ اکیلی ماں ضرورت مند کمزور اور محتاج بچوں کو اپنے ساتھ گھسیٹ کر بمشکل خوراک کی تلاش کر سکتی ہے۔ ایسے میں بچوں کی پرورش کے لئے خاندان اور پڑوسیوں کی متواتر مدد کی ضرورت تھی۔ یوں ایک انسان کی پرورش قبیلہ مل کر کرتا۔ ارتقاء نے انسانوں پر اس طرح سے دباؤ ڈالا جس سے انسان مضبوط معاشرتی روابط قائم کر سکتے تھے۔ مزید براں کیونکہ انسان نامکمل پیدا ہوتے تھے لہٰذا ان کو کسی بھی دوسرے جانور کی نسبت زیادہ بہتر تعلیم اور سماجی تعلیم دی جا سکتی تھی۔ زیادہ تر ممالئے رحم مادر سے ایسے نمودار ہوتے ہیں جیسے کہ چکنی مٹی کے برتن بھٹی سے نکلتے ہیں - ان کو اپنی مرضی میں ڈھلنے کی کوئی بھی کوشش یا تو ان کو داغ دار کر دیتی ہے یا پھر توڑ ڈالتی ہے۔ انسان رحم مادر سے ایسے نمودار ہوتا ہے جیسے کہ بھٹی سے شیشہ نکلتا ہے۔ اسے انتہائی آزادی کے ساتھ اپنی مرضی میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم اپنے بچوں کو اپنے پسندیدہ مذہب کا پیرو کار، سرمایہ دار یا اشتراکی، جنگ جو یا صلح پسند بناتے ہیں۔ 

    *ہم سمجھتےہیں کہ ایک بڑنے دماغ، اوزاروں کے استعمال، سیکھنے کی اعلیٰ صلاحیت اور پیچیدہ معاشرتی ڈھانچے کے بہت زیادہ فوائد ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ان تمام چیزوں نے مل کر بنی نوع انسان کو زمین پر سب سے طاقت ور جاندار بنا دیا۔ تاہم انسانوں نے یہ تمام فوائد پورے 20 لاکھ برسوں کے بعد اٹھائے۔ اس پورے عرصے میں وہ ایک انتہائی کمزور اور متوسط قسم کی مخلوق تھے۔ لہٰذا وہ انسان جو دس لاکھ برس قبل زمین پر رہتے تھے، وہ اپنے بڑے دماغ اور تیز دھار پتھر کے اوزاروں کے باوجود شکاریوں کے  خوف میں مسلسل مبتلا رہتے تھے۔انسان شاذونادر ہی بڑے شکار کرتے۔زیادہ تر وہ پودوں کو جمع کر کے، کیڑوں کو نکال کر، چھوٹے جانوروں کا پیچھا کر کے انہیں شکار کرتے یا پھر اپنے سے زیادہ طاقت ور گوشت خور جانوروں کے بچے کچے شکار کو کھا کر گزارا کرتے تھے۔ 

    ابتدائی پتھر کے اوزاروں کا ایک سب سے زیادہ عام استعمال ہڈیوں کو توڑ کر گودا نکالنا تھا۔ کچھ محققین سمجھتے ہیں کہ یہی ہمارا اصل رتبہ تھا۔ جس طرح سے ہدہد درخت کے تنوں میں سے کیڑے نکالنے کا ماہر ہوتا ہے، اوّلین انسان ہڈیوں میں سے گودا نکالنے کے ماہر تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابتدائی انسان صرف گودے ہی کو کیوں نکال کر کھانے کے ماہر بنے؟ اچھا، تھوڑی دائر کے لئے فرض کریں کہ آپ شیروں کے ایک گروہ کو دیکھ رہے ہیں جو ایک زرافے کا شکار کرکے اس کو ہضم کررہے  ہیں۔ آپ بے صبری سے انتظار کررہے ہیں تاوقتیکہ وہ اپنا کام پورا کر لیں اور پھر آپ اس بچے کچے شکار میں سے اپنا حصہ وصول کرسکیں۔ تاہم ابھی آپ کی باری آنے میں دیر ہے کیونکہ شیروں کے بعد لکڑبھگے اور پھر گیدڑ کی باری آتی ہے - اور آپ کی اتنی ہمت نہیں ہے کہ آپ بچے کچے شکار کو ان کا کھانا بننے سے روک سکیں۔ اس کے بعد سب سے آخر میں آپ کا جتھا مردار کے پاس جانے کی ہمت کر سکتا ہے، آپ محتاط ہو کر دائیں اور بائیں جانب دیکھتے ہیں - اور باقی بچ جانے والے شکار میں سے اپنا حصہ تلاش کرنے ہیں جس میں سے آپ کو ہڈیاں اور ان پر چپکا ہوا تھوڑا بہت گوشت ہی مل پاتا ہے۔ 

    یہ مثال ہماری تاریخ اور نفسیات کو سمجھنے کی کنجی ہے۔ جنس ہومو (یعنی انسان) کا خوراک کی زنجیر میں مقام ماضی قریب تک وسط ہی میں تھا۔ لاکھوں برسوں تک انسان چھوٹی مخلوق کا شکار کرتے اور جو کھانے پینے لائق جو بھی جمع کر سکنے کو ملتا جمع کرتے، اور وہ اس دوران بڑے شکاریوں کا بھی شکار بنتے۔ صرف 400,000 برس پہلے ہی کی بات ہے جب انسان کی کئی انواع نے بڑے گروہ کی شکل میں باقاعدگی سے شکار کرنا شروع کیا اور یہ صرف پچھلے 100,000 برس کے دوران ہی - ہومو سیپئین کے نمودار ہونے کے بعد - ممکن ہوا کہ اس انسان نے خوراک کی زنجیر پر چھلانگ لگا کر اول مقام حاصل کر لیا۔ 

    خوراک کی اس زنجیر میں درمیان سے اوپر کی طرف مری جانے والی اس شاندار چھلانگ کے بہت ہی زبردست نتائج نکلے۔ اہرام کے اوپر دوسرے جانوروں جیسا کہ شیر اور شارکس کواس مقام تک پہنچنے میں بتدریج لاکھوں برس کا عرصہ لگا۔ اس وجہ سے ماحولیاتی توازن قائم رہا اور یوں شیروں اور شارکس نے ماحولیاتی توازن میں زیادہ تباہی نہیں پھیلائی۔ جب شیر ہلاکت خیز بنے تو اس کے ساتھ ہی غزل بھی تیز دوڑنے سیکھ گئے، لکڑ بھگوں نے بہتر تعاون کرنا سیکھ لیا، اور گینڈے زیادہ غصے والے ہو گئے۔ اس کے برعکس، بنی نوع انسان اتنی جلدی خوراک کی زنجیر کے اہرام پر اوپر چڑھ گئی کہ ماحولیاتی توازن کو مطابقت حاصل کرنے کا وقت نہیں ملا۔ اس کے علاوہ، انسان خود کو ماحول میں ہم آہنگ کرنے میں ناکام ہو گئے۔ سیارے کے زیادہ تر اعلیٰ شکاری شاہانہ مخلوق ہیں۔ لاکھوں برسوں کے غلبے نے ان میں خود اعتمادی بھر دی ہے۔ ان کے برعکس سیپئین ایک کٹھ پتلی آمر کی طرح ہیں۔ ماضی قریب میں ہم سوانا کی مغلوب مخلوق میں سے ایک تھے، ہم اپنے مقام کے لئے خوف اور تشویش سے بھرے ہوئے تھے ، جو ہم کو دو آتشہ طور پر ستم گر اور خطرناک بنا دیتا ہے۔ بہت سی تاریخی آفات، مہلک جنگوں سے لے کر ماحولیاتی تباہی تک کا نتیجہ اس جلد باز چھلانگ کی صورت میں نکلا ہے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: انسانی سوچ کی قیمت - حصّہ دوم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top