Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    اتوار، 15 مئی، 2016

    بس کسی طرح سے بیرونی نظام شمسی میں پہنچ جائیں - حصّہ سوم

    پلازما راکٹ


    زیادہ مستقبل کی ٹیکنالوجی میں نیوکلیائی ضربی دھکیل اور ضد مادّہ شامل ہیں۔[1] لیکن آج انجنیئروں کے پاس پسند کرنے کی اور بھی چیزیں ہیں: تیز اسراع اور کیمیائی راکٹ کی طاقت، یا بلند کارکردگی کی حامل اور تکلیف دہ لیکن بتدریج اسراع حاصل کرنے والی برق پارے کے انجن۔ بہرحال اس جمعہ بازار میں ایک اور بچے کی آمد ہے، ایک ایسا انجن جو اونچے درجے کی مخصوص ضربیں مختصر سفر کے وقت میں دینے کی وعید لایا ہے اور اس کا ذمہ دار کوسٹا ریکن کا اسکول کا طالبعلم ہے جو بس خلاء نورد بننا چاہتا تھا۔

    سان جوز ، کوسٹا ریکا میں پیدا ہونے والا چانگ ڈیاز ریاست ہائے متحدہ میں اپنی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے لئے آیا اور اس عمل کے دوران انگریزی سیکھی۔ یہیں سے اس نے اپنے اسکول میں شاندار کارکردگی دکھائی اور پی ایچ ڈی کی سند پلازما کی طبیعیات میں ایم آئی ٹی سے حاصل کی۔ بالآخر اس نے اپنا خلاء نورد بننے کا خواب حاصل کرلیا یہ واحد ناسا کا خلا نورد ہے جو دہری شہریت کا حامل ہے۔ اس نے سات مرتبہ خلائی سفر کیا ہے (بشمول ایس ٹی ایس -٧٥، جس نے سیارچہ ٹی ایس ایس – آئی آر کا ابتدائی تجربہ کیا تھا)۔ تاہم فرینکلن چانگ ڈیاز کا شوق مستقبل کے انسانی بردار خلائی جہاز میں ہے اور وہ مستقبل کو پلازما کی طبیعیات میں دیکھتا ہے۔ 

    دو دہائیوں سے چانگ ڈیاز متغیر مخصوص ضربی مقنا پلازما راکٹ(Variable Specific Impulse Magnetoplasma Rocket) یا واسیمر انجن کو بنا رہا ہے۔ واسیمر خرد امواج کو دھکیل کو گرم کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے تاکہ وہ پلازما میں تبدیل ہو جائے۔ چانگ ڈیاز کہتے ہیں، "ہمارا واسیمرانجن اصل میں ایک برقی راکٹ ہے۔ یہ کیمیا کا استعمال نہیں کرتا، یہ نیوکلیائی توانائی کا استعمال بھی نہیں کرتا، یہ برق کا استعمال کرتا ہے۔ بجلی کو کہیں سے تو آنا ہے۔ لہٰذا ہماری شروع کے واسیمر کے استعمال میں ہم شمسی اجتماع کو بجلی بنانے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ بجلی کا استعمال پلازما پیدا کرنے کے لئے کیا جاتا ہے تاکہ ہمارا دھکیل کام کر سکے۔"

    چانگ ڈیاز بیان کرتے ہیں کہ واسیمر کچھ دوسرے برقی دھکیل والے نظام کی خصوصیات کا استعمال بھی کرتا ہے۔

    ڈان اور ڈیپ اسپیس اوّل برقی تھے؛ وہ زینون کو بطور دھکیل کے استعمال کرتے تھے اور وہ برق کا استعمال زینون کو حرارت دے کر پلازما بنانے کے لئے کرتے تھے۔ برق پارے کے انجن کا یہی کام ہے۔ یہی چیز ہال دھکیل سے ساتھ بھی ہے، یہ اس میدان میں ایک دوسری قسم کا برقی دھکیل ہے۔ ہال دھکیل برق پارے کے انجن کے مقابلے میں تھوڑا سا زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ برق پارے کے انجن کم طاقت کے ہوتے ہیں جیسا کہ ایک کلوواٹ ۔ ایک کلوواٹ تو ہیئر ڈرائر استعمال کرتا ہے۔

    ہال دھکیل تو اب ٤ یا ٥ کلوواٹ تک جا پہنچے ہیں لہٰذا پانچ ہیئر ڈرائر تو چل سکتے ہیں۔ ان کا طریقہ کار بھی وہی ہوتا ہے۔ یہ بجلی کو لیتے ہیں، دھکیل کو حرارت دیتے ہیں جو کہ زینون گیس ہوتی ہے، پھر یہ اسے پلازما میں تبدیل کرتے ہیں، پھر پلازما ایک برق پارے کی کرن کی صورت میں نکلتا ہے۔ اور ہال دھکیل میں بھی یہی چیز سرانجام پاتی ہے۔ صرف فرق یہ ہے کہ ہال دھکیل چار یا پانچ گنا زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ واسیمر اور دوسرے پلازما کے انجن میں فرق یہ ہے کہ واسیمر زیادہ توانائی پر کام کر سکتا ہے۔ واسیمر توانائی کی گھڑی ٢٠٠ کلوواٹ کی ہوتی ہے، ٢٠٠ کلوواٹ کا مطلب ایک ایس یو وی ہے ۔۔۔۔۔ اب آپ کچھ زیادہ سنجیدہ بات کر رہے ہیں ایک ایسی چیز کے بارے میں جو زیادہ بوجھ اٹھا کر خلاء میں لے جا سکتی ہے۔ 

    برق پارے کی زندگانی میں کچھ مسئلہ حرارت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب انجن ایک توسیعی وقت تک چلتا ہے تو ہارڈویئر گرم ہو جاتے ہیں اور کام کرنے والے حصّے کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔ لیکن واسیمر مقناطیسی میدان کا استعمال کرتے ہوئے گرم پلازما کے بہاؤ کو الگ کر لیتا ہے جس کو چانگ ڈیاز ایک نادیدہ پائپ کی تشبیہ دیتے ہیں۔" یہ آپ کے لئے یہ کرتا ہے کہ آپ کو ایک پائپ دیتا ہے جس کے ذریعہ پلازما راکٹ کو بنانے والے مادّے کو چھوئے بغیر گزر جاتا ہے۔"

    مقناطیسی میدان ایک حاجز کے طور پر خط کش کی طرح کردار ادا کرتا ہے جو دوسرے برق پاروں کے دھکیل کی قسموں کو حد میں رکھتے ہوئے زیادہ درجہ حرارت کے لئے ناممکن الدخیل ہوتا ہے۔ واسیمر پلازما کو لاکھوں ڈگری درجہ حرارت تک پہنچانے کے قابل ہے، لہٰذا اپنی طاقت بڑھا سکتا ہے۔ ٢٠٠ کلوواٹ انجن کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس کو توانائی بھی ٢٠٠ کلوواٹ کی درکار ہوتی ہے۔ یہی چیز واسیمر ٹیکنالوجی کی راہ میں حائل ہے۔ "آپ کو لازمی طور پر بہت ہی جدید شمسی پینل، جو کافی بڑا اور طاقتور ہو درکار ہوگا،" چانگ ڈیاز کہتے ہیں۔ آپ کتنا طاقتور شمسی پینل بنا سکتے ہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ شمسی پینل جو ٢٠٠ کلوواٹ پیدا کر سکیں جلد ہی آ جائیں گے۔ مثال کے طور پر ایک شمسی پینل جس کا حجم آئی ایس ایس کے ایک شمسی پینل جتنا ہے وہ لگ بھگ ١٠٠ کلوواٹ آج پیدا کرتا ہے اور زیادہ اثر آفریں شمسی پینل بننے کے مرحلے میں ہیں۔ 

    بہرصورت بھدے شمسی پینل نے کچھ ڈیزائنر کو دوسرے انتخاب کی جانب راغب کیا ہے – نیوکلیائی توانائی۔ واسیمر نیوکلیائی دھکیل انجن نہیں ہے، لیکن اس کو کام کرنے کے لئے درکار بجلی زیادہ جلدی نیوکلیائی بجلی گھر سے آسکتی ہے جس کی پیداوار کو میگاواٹ میں ناپا جاتا ہے، شمسی توانائی کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ ہے۔ انسانوں کے لئے نیوکلیائی منبع سے پیدا ہوئی توانائی سیارچوں سے دور لمبے سفر کے لئے قابل ترجیح ہوگی۔ اس قسم کی سطح کی چیز کی جب آپ بات کرتے ہیں ، چانگ ڈیاز کہتے ہیں، "تو آپ ٧٤٧ کو اڑانے جیسی قوّت کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ ٢٠٠ میگاواٹ کے لگ بھگ ہے۔" اس طرح کی توانائی کی سطح انسان بردار مریخ کی مہم کا وقت ٦ یا ٨ ماہ سے کم کرکے ٢ ماہ سے بھی کم کا عرصہ کر دے گا۔ آج نہیں ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمارے پاس یہ نہیں آ سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے ہمیں اس کا خاکہ اور بعد میں اسے عملی طور پر بنانا ہوگا۔ نیوکلیائی خلائی توانائی میں بہت سارے کام کرنے کے ہیں۔ کام کو واقعی میں کافی نچلی سطح پر کرنے کی ضرورت ہے۔ کم از کم ریاست ہائے متحدہ میں لوگ اس ٹیکنالوجی پر کام کرنے سے بہت زیادہ شرماتے ہیں۔" لیکن ریاست متحدہ ہی واحد نیوکلیائی طاقت رکھنے والی قوم نہیں ہے۔ نیوکلیائی قوّت رکھنے والی اقوام میں اضافے کے ساتھ جو خلائی سفر میں شامل ہو رہی ہیں، نیوکلیائی خلائی ری ایکٹر شاید چین، ہندوستان، روس یا یورپ بنا لیں۔ "نقطہ نظر یہ ہے کہ ہم خلاء میں کافی دور نہیں جا سکتے اگر ہم ان چیزوں کو نہیں بنائیں گے۔"

    چانگ ڈیاز ٹیکنالوجی میں ہونے والی اختراع کو بیرونی نظام شمسی میں پہنچنے کے لئے کافی اہمیت دیتے ہیں، اور وہ سمجھتے ہیں کہ واسیمر جیسے نظام اس قسم کی ایجاد کو پیش کرتے ہیں جس کی ہمیں ضرورت ہے۔" میرے خیال میں اس ٹیکنالوجی میں زبردست کام کرنے کی صلاحیت ہے۔ وہ اسے کھیل کا رخ بدلنے والا کہتے ہیں۔ تہ و بالا کرنے والا۔ یہ وہ الفاظ ہیں جس سے لوگ اس ٹیکنالوجی کی بیان کرتے ہیں کیونکہ اصل میں یہ اتنی توانائی کو برداشت کر سکتی ہے جتنی آپ اس میں ڈالیں گے۔ یہ توانائی کی کافی بلند سطح تک جا سکتی ہے۔ اس سے آپ غیر معمولی کارکردگی حاصل کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں جو کام یہ کرے گی اس سے تمام بیرونی نظام شمسی انسانی کھوج کے لئے کھل جائے گا۔"

    تجزیہ نگاروں کے مطابق جو چیز واضح ہے وہ یہ کہ دیوہیکل سیاروں کے سفر میں لگنے والا وقت غیر معمولی طور پر کم ہو جائے گا۔ مزید براں خلائی ماحول کے خطرات کو کم کرنے کے لئے ، اڑان میں کمی کا مطلب یہ کہ ہر استعمال ہونے والی چیز میں کمی، پانی سے لے کر آکسیجن ، اور خوراک سے لے کر ایندھن و توانائی تک۔ لمبے عرصے کے سفر میں توانائی درکار ہوتی ہے جس کو بہت زیادہ اعلیٰ کارکردگی کا حامل یا پھر تعداد میں زیادہ ہونا چاہئے۔ تشبیہ کے لئے رابرٹ زبرین اسپٹ فائر ، راف کے جنگ عظیم دوم کے لڑاکا ہوائی جہاز کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

    اس کے پاس ١٠٠٠ ہارس پاور کا انجن تھا۔ ایک منٹ کے لئے ذرا سوچیں۔ یہ آج کے معیار کے لحاظ سے تو کچھ بھی نہیں ہے۔ تاہم اگر آپ ایک سو برس پیچھے چلے جائیں، جب ہر کوئی گھوڑا استعمال کرتا تھا، تو یہ ١٠٠٠ گھوڑوں کے برابر تھا ! ایک ہزار گھوڑے مل کر جہاز کو کھینچتے۔ آج ایسے بھی جہاز ہیں جن کی کم از کم طاقت ہی اسپٹ فائر سے سو گنا زیادہ ہے۔ لہٰذا آج وہ ایک لاکھ گھوڑوں کے برابر ہے۔ یہ اتنے گھوڑے ہیں جتنے کہ چنگیز خان کی فوج میں کل ملا کر تھے، جو ایک درمیانی حجم کے ہوائی جہاز کو دھکا لگاتے ہیں – جیسا کہ ٧٣٧ – اور ہمارے پاس ایسے ہزاروں طیارے موجود ہیں جو جگہ جگہ اڑتے ہیں۔


    سابق شٹل خلائی نورد ایلون ڈریو تبصرہ کرتے ہیں

    اگر آپ ایک اچھا طاقتور انجن لیں جو ایندھن کے حوالے سے اچھی کارکردگی کا حامل ہو، جس طرح سے فرینکلن چانگ ڈیاز کاواسیمر انجن ہے تو یکایک آپ بیرونی سیاروں کی اس پرانی کیپلر ساحل کا سفر نہیں کریں گے بلکہ آپ کے پاس وہ طاقت ہوگی جس سے آپ اور آگے جا سکیں گے۔ بجائے آپ مشتری پر پہنچ کر واپس یہاں پلٹیں، آپ دوسری جگہ پر جانے کے لئے آدھے راستے پر ہوں گے۔ پھر آپ گھومیں اور بریک پر پیر رکھیں، اور مشتری اور زحل کے نظام کی طرف رفتار ہلکی کریں۔ یہی کام آپ کو واپس آنے کے لئے کرنا ہوگا، لہٰذا برسوں تک اس کام کے کرنے کی وجہ سے آپ ماہ بلکہ ہفتے آنے جانے میں لگا دیں گے اور میرے خیال میں جب ایسا ہوگا تو واقعی بیرونی نظام شمسی کو کھوجنا قابل عمل ہوگا۔ 






    [1]۔ اس بارے میں مزید جاننے کے لئے دیکھئے جارج ڈیسن کی کتاب پروجیکٹ اورائن - جوہری خلائی جہاز 1957ء تا 1965ء (پینگوئن)۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: بس کسی طرح سے بیرونی نظام شمسی میں پہنچ جائیں - حصّہ سوم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top