Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 18 مئی، 2016

    انسانی جائے روئیدگی کی نقل - حصّہ اوّل


    خاکہ 9.9 مریخ ٥٠٠ مسکن کا باہری حصّہ۔ مریخ ٥٠٠ میں عملہ ١٧ ماہ تک رہ سکتا ہے۔ ہوائی تالا اور مریخ کا ماحول بائیں جانب ہے۔


    تابکاری کو چھوڑیں، خلاء میں لمبے خلائی سفر کے اثرات کو خلا نوردوں میں کس طرح جانچا جائے گا؟ اور کس طرح کے مسائل کا سامنا لمبے عرصے خلائی جہاز میں رہنے والے عملے کے اراکین کو کرنا ہوگا جب وہ دور دراز کی دنیا میں اتریں گے؟ پروازی منصوبہ ساز مختلف ذرائع سے اعداد و شمار کو حاصل کر رہے ہیں لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ محققین اکثر سب میرین یا بحری جہازوں پر کام کرنے والوں کو لمبے عرصے والے خلائی سفر سے تشبیہ دیتے ہیں۔

    ١٩٧٠ء کے عشرے میں نیو لندن، کنیکٹیکٹ میں واقع نیوی سب میرین میڈیکل ریسرچ لیبارٹری نے ان سب میرینر کا ڈیٹا اکھٹا کرنا شروع کیا جنہوں نے رضاکارانہ کافی برسوں تک خود کو پیش کیا۔ اسی طرح ایک ١٠٠٠ شخصی ہوابازوں پر تحقیق نیول ایرو اسپیس میڈیکل ریسرچ لیبارٹری ، پنساکولا، فلوریڈا میں ہوئی۔ دونوں جگہوں میں معمولوں کو کسی شدید ماحولیاتی حالات میں زندگی گزارنے کے پس منظر میں نہیں بلکہ ان کے خاص پیشے کی وجہ سے طبّی اور نفسیاتی طور پر بہت ہی احتیاط کے ساتھ جانچا گیا۔[1] تاہم طبّی جانچ کے لئے بنائے گئے بنیادی ڈھانچے کا استعمال کرتے ہوئے سب مرینر اور دوسری مسلح افواج کے لوگوں پر ہونے والی تحقیق ہمیں کافی اہم معلومات فراہم کر سکتی ہے جو ہم مستقبل میں لمبے سفر پر جانے والے مسافروں کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔

    سرد جنگ کے وقتوں سے ہی سائنس دان ان مہمات کی نقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مریخ ٥٠٠ کی مہم ماسکو میں ٢٠٠٧ء میں شروع ہوئی تاہم اس کی جڑیں انسان بردار چاند کے مشن کے وقت سے ہی موجود ہیں۔ نومبر ١٩٦٧ء میں رشین اکیڈمی آف سائنس کے انسٹیٹیوٹ آف بائیو میڈیکل پرابلم نے تین رضاکاروں کو ایک برس تک ایک الگ خانے میں رکھا جسے محبت سے وہ "نالی" کہتے تھے ۔ یہ تجربات کا وہ پہلا سلسلہ تھا جس میں تجربات کو پھیلاتے ہوئے انسانوں کو بند منضبط نظام کے ماحول میں رکھا گیا تھا جہاں پانی اور ہوا کو بازیافت کیا جاتا تھا۔ ١٩٧٠ء تک یہ سہولت بڑھ کر تین نمونہ جاتی نقول تک پہنچ گئی جس کو مارسو لٹ یا مریخی اڑان کا نام دیا تھا اس میں نباتاتی خانے کا اثر بھی شامل تھا۔ مستقبل کی جانچ میں قید کو کافی بڑھا دیا تھا۔ برداشت کرنے والے اس تجربے میں روس، یورپی یونین اور چینی محققین اور معمول شامل تھے۔ عملے کے اراکین کو تین مختلف پیچیدہ نمونوں سے گھمایا گیا جن میں سے ایک قابل رہائش نمونے کی نقل تھا جبکہ دوسرا طبّی سہولت کا تھا اور تیسرا افادے کا نمونہ تھا سب کو ایک بنیادی خلائی جہاز کی طرح بنایا تھا۔ ایک مریخ منتقل کرنے والی گاڑی، جو مریخی سطح کے ماحول کے علاقے سے ملی ہوئی تھی اس کو صرف عملے کے تین اراکین نے ٣٠ دن کے "مریخی کھوج کے دوران" استعمال کیا تھا۔ انہوں نے ایک ہفتہ مریخ کے نقل شدہ ماحول میں گزارا تھا جہاں انہوں نے اپنی مرکزی خلائی گاڑی پر واپس آنے سے پہلے تین الگ خلائی گاڑی سے باہر نکل کر یا مریخ پر چل کر کام سرانجام دیئے تھے۔ 

    حتمی مہم کل ملا کر ٥٢٠ دن تک متصل نقلی خلائی کمپلیکس میں چلی۔ عملے کے چھ اراکین میں سے تین روسی تھے۔ ای ایس اے نے ایک فرانسیسی اور ایک کولمبین نژاد اطالوی شریک کار دیا تھا۔ چھٹے رضاکار کے لئے چین کو موقع ملا تھا۔ عملے نے ٣ جون ٢٠١٠ء کو خلائی مہم کی نقل بہت ہی محدود خوراک کی رصد سے کرنا شروع کی۔ نمونہ جات میں ڈیٹا اور کنٹرول سسٹم، مواصلاتی آلات، ہوا، پانی کا ذخیرہ اور ادھورا بازیافتگی کا نظام شامل تھا۔ نمونے میں لگے ہوئے پرواز کو قابو کرنے والے آلات نے وقت کے فرق کو بڑھانا شروع کیا تاکہ زمین سے مریخ تک جانے والے خلائی جہاز کی نقل کر سکے. باہر کی دنیا سے رابطوں کو حد درجہ محدود کر دیا تھا۔ عملے کی اکثریت بے خوابی کی کیفیت سے گزری اور کچھ توایک وقت میں اس قدر بے زار ہو گئے تھے کہ بتائی ہوئی مشق یا کرنے کے کام ہی نہیں کرتے تھے۔

    ٢٠١٣ء کی ایک رپورٹ [2] جو نیشنل اکیڈمی آف سائنس کو پیش کی گئی اس میں بتایا گیا، " عملے کی اقامت پوری مہم پر بڑھتی رہی جو چلنے کے ماحول کی کم فراہمی (یعنی کہ عافیت گزینی )، زیادہ سونے اور آرام کرنے کا نتیجہ تھی ۔" اراکین کو نیند کے چکر میں خلل کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا، " جو بلا ناغہ تفریحی کی عدم فراہمی کو ظاہر کرتا تھا۔" تجربے سے یہ نتیجہ حاصل ہوا کہ مستقبل کے اراکین کو خلائی جہاز کے ماحول میں سفر کرنے کے لئے ارضی طبیعی خصوصیات کی نقل کرنی ہوگی (مثال کے طور پر ٢٤ گھنٹے کا دن/ رات کا چکر اور باقاعدہ کھانے کا وقت)۔ 

    کچھ انجنیئر تو اس سے بھی بڑھ کر اگلے قدم کو بطور مکمل نقل کے دیکھنا چاہتے ہیں جس میں دو انسانوں پر مشتمل عملہ آئی ایس ایس پر رہے۔ اس صورت میں دو خلا نورد آئی ایس ایس کا سفر کریں گے مریخ تک جانے کی نقل میں ٩ ماہ وہاں گزاریں گے اور پھر ایک مہینے کے لئے زمین پر آئیں گے۔ زمین پر تھوڑا عرصہ گزارنے کے بعد مہم کے ختم ہونے کے بعد زمین پر واپس جانے سے پہلے دوبارہ آئی ایس ایس پر ٩ ماہ کے لئے چلے جائیں گے۔ اس طرح سے پروازی انجنیئروں ، نفسیات دانوں اور طبّی عملے کو احتیاط کے ساتھ جانچ کرنے کا موقع مل جائے گا جس میں وہ دیکھیں گے کہ اس طرح کے خلائی سفر میں انسانی جسم اور دماغ کیا کرتا ہے۔

    شٹل آزمودہ کار ایلون ڈریو کہتے ہیں کہ لمبے عرصے میں شناسائی کا اثر مہم کی کامیابی پر کافی عمیق ہوگا۔ " آپ کو نئی حقیقت کا ادراک کرنے کے لئے کافی زیادہ بوجھ اٹھانے کی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ بہت ساری چیزوں کو ہم معمولی سمجھتے ہیں مثلاً یکایک ہی آپ کے شعور کا حصّہ یہ بن جاتا ہے کہ کس طرح سے توازن کو قائم رکھ کر چلتے ہیں ۔ ہم تمام لوگ اس مرحلے سے گزرتے ہیں جس کو ہم "خلائی احمق" کہتے ہیں۔ ہم ہمیشہ یہ فرض کرتے ہیں کہ خلاء میں جاتے ہی کے ساتھ ہمارا آئی کیو آدھا ہو جاتا ہے۔" وہ چیزیں جو زمین پر پیدائشی لگتی ہیں ان کے لئے پہلے سے کافی مشق کرنی پڑتی ہے کیونکہ جب خلا نورد خلاء میں جاتے ہیں تو سادہ چیزیں بھی ان کو ایسی دشوار گزار لگ سکتی ہیں جن کا کوئی حل نہ ہو۔ ڈریو اس مظہر کے وقوع پذیر ہونے کو اس حقیقت سے جوڑتے ہیں کہ "میں نئی دنیا میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوں جہاں جن چیزوں کو معمول کے مطابق ہونا چاہئے وہ نہیں ہوتی ہیں۔ یہاں پر جس طرح سے آپ چیزوں کو رکھتے ہیں ویسے زمین پر نہیں رکھتے۔ جس طرح سے آپ پانی لیتے ہیں یا کھانا بناتے ہیں وہ بالکل ہی الگ طریقہ ہوتا ہے؛ اب آپ کے دماغ کو کافی زور ذہن کے طور پر کام کرنے کے لئے لگانا ہوتا ہے جس سے یہ اصل میں نچلے دماغی فعل کو بھیجتا ہے اور اب آپ کے اوپری دماغ کو اس سے نمٹنا ہوتا ہے۔" ڈریو کے تجربے میں عملہ مطابقت پذیری وقت کے ساتھ آس پاس کے ماحول کو اس طرح بنا کر حاصل کرتا ہے جس ماحول سے خلا نوردوں کا روزانہ واسطہ پڑتا ہے۔ 





    خاکہ 9.10 مریخ ٥٠٠ کے نمونے جس میں رہائش اور مریخی گاڑی اور مریخی ماحول شامل تھا۔






    [1] ۔نیوی میڈیسن آپریشنل ٹریننگ سینٹر، پنساکولا ، فلوریڈا کےڈپٹی ڈائریکٹر آف ریسرچ ڈاکٹر اسٹیون لینول سے ذاتی گفتگو۔ 




    [2]۔ مریخ کے ٥٢٠ دن کی مہم کی نقل میں عملے کی طویل سست حرکی اور نیند کے وقت اور دورانیہ میں تبدیلی کا معلوم ہوا ہے۔ میتھائس باسنر اور ساتھی؛ پی این اے ایس، منظور شدہ ٢٧ نومبر ٢٠١٢ء۔ 

    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: انسانی جائے روئیدگی کی نقل - حصّہ اوّل Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top