Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    اتوار، 8 مئی، 2016

    کوانٹم منتقلی




    طبیعیات دانوں کے لئے اس کا کوانٹم کائناتوں کی فضول بحث کے علاوہ ایک اور عملی اطلاق ہو سکتا ہے یعنی کہ کوانٹم منتقلی۔ اسٹار ٹریک اور دوسری سائنسی کہانیوں میں دکھایا جانے والا ٹرانسپورٹر لوگوں اور اجسام کو خلاء میں وسیع فاصلوں پر چشم زدن میں پہنچا دیتا ہے۔ لیکن جیسا للچا دینے والا دکھائی دیتا ہے ایسا ہے نہیں کیونکہ طبیعیات دانوں نے تو اس خیال کو شروع سے ہی آڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیا کیونکہ یہ اصول عدم یقین سے انحراف کرتا ہے۔ جوہر کی پیمائش کرنے سے اس کی حالت بدل جاتی ہے لہٰذا اس کی بالکل درست نقل نہیں کی جا سکتی۔

    لیکن سائنس دانوں نے اس دلیل میں ایک ١٩٣٣ء میں کوانٹم الجھاؤ کے ذریعہ ایک نقص پا لیا۔ اس کی بنیاد اسی آئن سٹائن کے پرانے تجربے پر رکھی گئی تھی جس کو آئن سٹائن نے ١٩٣٥ء میں اپنے رفیق بورس پوڈولسکی اور ناتھن روزن کے ساتھ مل کر پیش کیا تھا (جس کو ای پی آر تناقض کہتے ہیں)۔ اس تجربے کا مقصد کوانٹم نظریئے کے پاگل پن کو بیان کرنا تھا۔ فرض کریں کہ ایک دھماکہ ہوتا ہے، اور اس میں سے دو الیکٹران ایک دوسرے سے جدا ہو کر مخالف سمت میں روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ الیکٹران لٹو کی طرح گھومتے ہیں، لہٰذا یہ فرض کریں کہ ان کا گھماؤ بھی ایک دوسرے سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی کہ اگر ایک الیکٹران کا گھماؤ اس کے محور سے اوپر کی طرف ہے تو دوسرے الیکٹران کا گھماؤ نیچے کی طرف ہوگا (یعنی کہ کل گھماؤ صفر ہوگا)۔ اس سے پہلے کہ ہم اس کی پیمائش کریں ، ہم نہیں جانتے کہ دونوں الیکٹران کس طرف گھوم رہے ہیں۔ 

    آب کچھ برس تک انتظار کریں۔ اس وقت تک دونوں الیکٹران ایک دوسرے سے کئی نوری برس کے فاصلے پر موجود ہوں گے۔ اب اگر ہم ایک الیکٹران کے گھماؤ کی پیمائش کرتے ہیں اور ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا گھماؤ محور سے اوپر کی طرف ہے، تو ہمیں فی الفور معلوم ہو جاتا ہے کہ دوسرا الیکٹران نیچے کی جانب گھوم رہا ہے ( اور اسی طرح اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے )۔ اصل میں جو الیکٹران اوپر کی جانب گھومتا ہوا پایا گیا ہے وہ دوسرے الیکٹران کو مجبور کر دے گا کہ وہ نیچے کی طرف گھومے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں کوئی ایسی چیز فی الفور معلوم ہو گئی جو کئی نوری برس دور موجود ہے۔

    (ایسا لگتا ہے کہ اطلاع نے روشنی کی رفتار سے تیز سفر کیا ہے جو بظاہر آئن سٹائن کی خصوصی نظریہ اضافیت سے انحراف ہے۔) کچھ لطیف وجوہات کی بنا پر آئن سٹائن اس بات کو بیان کر سکتا تھا کہ ایک جوڑے کی کامیاب پیمائش سے کوئی بھی اصول عدم یقین کی خلاف ورزی کر سکتا ہے۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ اس نے یہ ثابت بھی کیا کہ کوانٹم میکانیات اس سے کہیں زیادہ عجیب و غریب ہے جتنا کہ پہلے اسے سمجھا جاتا تھا۔

    اس وقت سے لے کر اب تک، طبیعیات دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کائنات مقامی ہے، یعنی کہ ایک حصّے میں ہونے والی گڑبڑ صرف منبع سے نکل کر مقامی طور پر ہی پھیلتی ہے۔ آئن سٹائن نے ثابت کیا کہ کوانٹم میکانیات اپنی اصل روح کی بنیاد پر غیر مقامی ہے ۔ ایک ذرائع سے ہونے والی گڑبڑ کائنات کے دور دراز کے حصّوں پر فی الفور اثر انداز ہوتی ہے۔ آئن سٹائن اس کو " دور دراز بھوت کا اثر " کہتا تھا۔ جو اس کے خیال میں نہایت ہی بیہودہ تھا۔ لہٰذا آئن سٹائن نے سوچا کہ کوانٹم نظریہ لازمی طور پر غلط ہوگا۔

    (کوانٹم میکانیات کے ناقدین آئن سٹائن – پوڈولسکی – روزن تناقض کو یہ فرض کرکے حل کر سکتے ہیں کہ اگر ہمارے آلات کافی حساس ہوں گے تو وہ اصل میں اس بات کا معلوم لگا لیں گے کہ الیکٹران اصل میں کس طرف گھوم رہا ہے۔ الیکٹران کے گھماؤ اور اس کے محل وقوع میں ہونے والی عدم یقینیت صرف فرضی چیز ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے آلات کافی خام ہیں۔ اس نے ایک تصوّر مخفی تغیرات کا متعارف کروایا – یعنی کہ کوئی مخفی ذیلی کوانٹم کا نظریہ ضرور موجود ہوگا جس میں کسی بھی قسم کی کوئی بھی عدم یقینیت نہیں ہوگی اور اس کی بنیاد ایک نئے متغیر پر ہوگی جو مخفی متغیر کہلائیں گے۔)

    اس کی اہمیت اس وقت ١٩٦٤ء میں اور بڑھ گئی جب طبیعیات دان جان بیل نے ای پی آر تناقض اور مخفی متغیر کو جانچا۔ اس نے بتایا کہ اگر کوئی ای پی آر کا تجربہ کرے تو دونوں الیکٹران کے گھماؤ میں ایک عددی تعلق موجود ہوگا جس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ کونسا نظریہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر مخفی تغیر والا نظریہ درست ہوا جیسا کہ متشکک یقین رکھتے ہیں تو گھماؤ لازمی طور پر ایک طرح سے ہی تعلق رکھے گا۔ بالفاظ دیگر کوانٹم میکانیات (جدید جوہری طبیعیات کی بنیاد) صرف ایک تجربے سے ہی ثابت یا باطل ہو سکتی تھی۔

    لیکن تجربات نے حتمی طور پر یہ بات ثابت کردی کہ آئن سٹائن غلط تھا۔ ١٩٨٠ء کے عشرے کی ابتدا میں ایلن اسپیکٹ اور اس کے رفقائے کاروں نے فرانس میں ای پی آر کا تجربہ ان سراغ رسانوں کی مدد سے کیا جو ١٣ میٹر دور تھے، جنہوں نے کیلشیم کے جوہر سے نکلنے والے فوٹون کے گھماؤ کی پیمائش کی تھی۔ ١٩٩٧ء میں ای پر آر کا تجربہ ان سراغ رسانوں کی مدد سے کیا گیا جو ایک دوسرے سے ١١ کلومیٹر دور تھے۔

    ہر مرتبہ کوانٹم نظریہ ہی جیتا۔ اطلاع کی کچھ ا قسام روشنی کی رفتار سے تیز سفر کر سکتی ہے (ہرچند کہ آئن سٹائن ای پی آر کے تجربے میں غلط تھا، لیکن وہ دوسرے سوال پر صحیح تھا جو روشنی کی رفتار سے تیز سفر پر اٹھایا گیا تھا۔ اگرچہ ای پی آر تجربہ اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ آپ کچھ کہکشاں کے پرلی طرف کی اطلاع کو فی الفور حاصل کر لیں، لیکن آپ اس کے ذریعے پیغام بھجوانے کے قابل نہیں بن سکتے ۔ مثال کے طور پر آپ مورس کا کوڈ اس طرح سے نہیں بھیج سکتے۔ حقیقت میں ایک "ای پی آر ٹرانسمیٹر" ہر مرتبہ صرف اٹکل اشارے ہی بھیجے گا جب آپ اس کی پیمائش کریں گے۔ ای پی آر کا تجربہ آپ کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ آپ کہکشاں کے دوسری طرف کی اطلاع کو حاصل کر لیں، لیکن یہ آپ کو کام کی اطلاع یعنی کہ جو اٹکل نہ ہو اس کی ترسیل کی اجازت نہیں دیتا۔)

    بیل اس اثر کو ایک ریاضی کی مثال سے بیان کرنا پسند کرتا ہے جس کو برٹلس مین کہتے ہیں۔ اس کی ایک عجیب عادت ہے جس میں وہ ہر روز ایک پیر میں سبز موزہ پہنتا ہے جبکہ دوسرے پیر میں نیلا موزہ اور وہ اس کو کسی خاص ترتیب میں نہیں پہنتا۔ اگر کسی دن آپ نے دیکھا کہ وہ الٹے پیر میں نیلا موزہ پہنے ہوئے ہے، تو آپ کو روشنی کی رفتار سے بھی تیزی سے معلوم ہو جائے گا کہ اس نے دوسرے پیر میں سبز موزہ پہنا ہوا ہے۔ لیکن اس بات کو جاننے سے آپ کسی اطلاع کو اس طرح سے بھیج نہیں سکتے۔ اطلاع کا جاننا اس کے بھیجے جانے سے مختلف ہے۔ ای پی آر کے تجربے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اطلاع کی ترسیل بذریعہ خیال خوانی یا وقت میں سفر روشنی کی رفتار سے تیز کر سکتے ہیں ۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ہم اپنے آپ کو کائنات سے بالکل ہی علیحدہ کر لیں۔

    یہ ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم کائنات کی ایک مختلف شکل دیکھیں۔ ہمارے جسم کے تمام جوہروں اور نوری برس کے فاصلوں پر موجود جوہروں میں ایک کائناتی الجھاؤ موجود ہے۔ کیونکہ تمام مادّہ ایک واحد دھماکے یعنی کہ بگ بینگ سے وجود میں آیا ہے ایک طرح سے ہمارے جسم کے جوہر کائنات میں موجود دوسری جانب کے جوہروں سے ایک طرح کے کونیاتی کوانٹم جال میں جڑے ہوئے ہیں الجھے ہوئے ذرّات ایک طرح سے جڑواں ہیں اور اب بھی ایک ہبل سری سے (ان کے موجی تفاعل آپس میں )جڑے ہوئے ہیں جو کئی نوری برس پر مشتمل ہو سکتے ہیں۔ اس وقت کیا ہوتا ہے جب ایک رکن دوسرے پر خود کار طریقے سے اثر انداز ہوتا ہے۔ لہٰذا اس طرح سے ایک ذرّے میں موجود اطلاع دوسرے ساتھی ذرّےکی اطلاع کو خود بخود ظاہر کر دیتی ہے۔ الجھے ہوئے جوڑے اس طرح کا برتاؤ کرتے ہیں جیسا کہ وہ ایک ہی ہوں چاہئے وہ ایک دوسرے سے لمبے فاصلے پر ہی کیوں نہ موجود ہوں۔ 

    (زیادہ صحیح طور پر ہم کہ سکتے ہیں کہ کیونکہ بگ بینگ میں ذرّات کا موجی تفاعل آپس میں جڑا ہوا اور باہم مربوط تھا ، لہٰذا ان کا موجی تفاعل ممکنہ طور پر اب بھی بگ بینگ کے ارب ہا برس گزرنے کے بعد کچھ حصّے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، لہٰذا ایک حصّے کے موجی تفاعل میں ہونے والی گڑبڑ دور دراز میں موجود دوسرے موجی تفاعل پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔)

    ١٩٩٣ء میں سائنس دانوں نے تجویز دی کہ ای پی آر کے الجھاؤ کے طریقے کو استعمال کرتے ہوئے کوانٹم منتقلی کا طریقہ کار بنایا جا سکتا ہے۔ ١٩٩٧ء اور ١٩٩٨ء میں کالٹک، ڈنمارک کی آرہس یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف ویلز کے سائنس دانوں نے کوانٹم منتقلی کا پہلا مظاہرہ کیا جب ایک اکلوتا فوٹون میز پر سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوا۔ یونیورسٹی آف ویلز کے سیموئیل براؤنسٹین جو اس ٹیم کا حصّہ تھے وہ الجھے ہوئے جوڑے کا موازنہ دو پریمیوں سے کرتے ہیں "جو آپس میں ایک دوسرے کو اتنا اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ وہ اپنے محبوب کے بارے میں الگ ہو کر دور فاصلے پر رہ کر بھی بہت اچھی طرح بتا سکتے ہیں۔"

    (کوانٹم منتقلی کے تجربات میں تین چیزوں کی ضرورت ہوتی جن کو ہم الف ، ب اور ج کہتے ہیں۔ فرض کریں کہ ب اور ج دو ایسے جڑواں ہیں جو آپس میں ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہیں۔ اب ب ،الف سے رابطے میں آتا ہے یہ وہ جسم ہے جس کو منتقل ہوناا ہے۔ ب ، الف کی "جانچ" کرتا ہے اس طرح سے الف میں موجود اطلاع ب کو منتقل ہو جاتی ہے۔ اب یہ اطلاع خود کار طور پر ج میں منتقل ہو جاتی ہے۔ لہٰذا، ج بعینہ الف کی نقل بن جاتا ہے۔)

    کوانٹم منتقلی میں ہونے والی پیشرفت کافی تیز ہے۔ ٢٠٠٣ء میں سوئٹزر لینڈ کی یونیورسٹی آف جنیوا میں سائنس دانوں نے فوٹون کو 1.2میل تک فائبر بصری تار کے ذریعہ منتقل کیا۔

    روشنی کے فوٹون (1.3 ایم ایم طول موج پر) ایک تجربہ گاہ سے روشنی کے فوٹون کی مختلف طول موج (1.55 ایم ایم ) میں ایک دوسری تجربہ گاہ میں منتقل کیا جو اس لمبی تار سے منسلک تھے۔ نیکولس گیسن اس منصوبے پر کام کرنے والے ایک طبیعیات دان ہیں وہ کہتے ہیں ، :ممکنہ طور پر ، بڑے اجسام جیسا کہ کوئی سالمہ تو میری زندگی میں ہی منتقل کرلیا جائے گا، لیکن اصل بڑے اجسام سردست نظر آنے والی مستقبل کی ٹیکنالوجی کے ذریعہ بھی قابل منتقل نہیں ہو سکتے۔"

    ایک اور بڑی دریافت ٢٠٠٤ء میں ہوئی جب نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹینڈرڈس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کے سائنس دانوں نے نہ صرف روشنی کے کوانٹم کو منتقل کیا بلکہ پورا جوہر ہی منتقل کر دیا۔ انہوں نے کامیابی کے ساتھ بیریلیئم کے تین جوہروں کو الجھایا اور ایک جوہر کے خواص دوسرے جوہر میں منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے جو ایک بڑی کامیابی تھی۔ کوانٹم منتقلی کا عملی اطلاق بہت ہی شاندار ہوگا۔ لیکن اس بات کو مد نظر رکھنے ہوگا کہ کوانٹم منتقلی کی راہ میں اب بھی کافی مسائل حائل ہیں۔ سب سے پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ اصل جسم اس عمل میں ختم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا آپ منتقل کیے گئے جسم کی نقل نہیں بنا سکتے ۔ صرف ایک ہی نقل ممکن ہے۔ دوسرے آپ کسی بھی جسم کو روشنی کی رفتار سے تیز منتقل نہیں کر سکتے۔ اضافیت کا یہ اصول کوانٹم منتقلی پر بھی لاگو ہے (کسی جسم الف کو جسم ج میں منتقل کرنے کے لئے، آپ کو اب بھی کوئی درمیانی جسم ب درکار ہوگا جو دونوں میں رابطہ کر سکے اور یہ روشنی کی رفتار سے آہستہ سفر کرے گا۔) تیسرے شاید سب سے اہم مسئلہ جو کوانٹم منتقلی کا وہی مسئلہ ہے جو کوانٹم کمپیوٹنگ کا رہا ہے یعنی کہ اجسام کو لازمی طور پر مربوط ہونا چاہئے۔ ماحول سے ہونے والی ہلکی سے بھی گڑبڑ کوانٹم منتقلی کو تباہ کر دے گی۔ لیکن کافی وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اکیسویں صدی کے اندر ہی پہلا جرثومہ منتقل کیا جا سکے گا۔ 

    کسی انسانی جسم کی منتقلی دوسرے مسائل رکھتی ہے۔ براؤنسٹین کہتا ہے، " فی الوقت اطلاعات کے پہاڑ سے نبرد آزما ہونا ہے ۔ سب سے بہترین ذرائع نقل و حمل کو بھی استعمال کرکے ہم اس وقت یہ بات دیکھ سکتے ہیں کہ تمام اطلاعات کو منتقل کرنے میں ہی کائنات کی عمر جتنا وقت لگ جائے گا۔"
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: کوانٹم منتقلی Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top