Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    منگل، 24 مئی، 2016

    ایم – نظریہ


    آج چوتھی جہت کے اسرار اور حکمت ایک بالکل ہی نئی وجہ سے ظاہر ہو رہے ہیں یعنی کہ اسٹرنگ نظرئیے کی تخلیق اور اس کی ایم نظرئیے میں تجسیم نے اس کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔ تاریخی طور پر اضافی خلاء کے تصوّر کو طبیعیات دانوں کی وجہ سے بڑی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا؛ ان کا کہنا تھا کہ اضافی جہتیں صوفیوں اور عطائیوں کے کھیل کا میدان ہے۔ وہ سائنس دان جو ان دیکھے جہانوں کی بات کرتے تھے وہ زبردست تمسخر کا نشانہ بنتے تھے۔

    ایم نظرئیے کے آنے کے ساتھ ہی سب کچھ بدل گیا۔ اضافی جہتیں اب طبیعیات کی دنیا میں ہونے والے انقلاب میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں کیونکہ طبیعیات دان مجبور ہیں کہ وہ عظیم تر مسئلے کا سامنا کریں، عمومی اضافیت اور کوانٹم کے درمیان موجود کھائی کو پاٹیں ۔ حیرت انگیز طور پر یہ دونوں نظرئیے اس تمام علم کا مجموعہ ہیں جو ہم نے طبیعیات کے شعبے میں کائنات کے بارے میں بنیادی طور پر حاصل کیا ہے۔ فی الوقت صرف ایم نظریہ ہی ان دونوں بظاہر ایک دوسرے کی مخالف نظریوں کو ایک کرکے ایک "ہر شئے کے نظرئیے" میں ڈھال سکتا ہے۔ وہ تمام نظرئیے جو ماضی میں پیش کئے گئے ہیں ان میں سے صرف ایک ہی امید وار اس قابل نظر آتا ہے جو بقول آئن سٹائن کے "خدا کی حکمت" کو جان سکے اور وہ ہے ایم نظریہ۔

    صرف دس یا گیارہ جہتوں میں ہمارے پاس اتنی جگہ ہوگی کہ ہم قدرت کی تمام قوّتوں کو ایک نفیس نظرئیے میں بیان کر سکیں۔ ایسا شاندار نظریہ پرانے سوال کا جواب دے سکتا ہے یعنی کہ ابتداء سے پہلے کیا ہوا تھا؟ کیا وقت بھی الٹ سکتا ہے؟ کیا جہتی گزرگاہیں ہمیں کائنات میں دور دراز مقام تک لے جا سکتی ہیں؟(ہرچند اس نظرئیے کے ناقد بالکل درست طور پر کہتے ہیں کہ اس نظرئیے کی جانچ ہماری موجود تجرباتی قابلیت سے کہیں زیادہ ہے، اس کے باوجود کافی سارے تجربات ایسے ہیں جن کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے اور جو ہو سکتا ہے کہ صورتحال کو بدل دیں جیسا کہ ہم نویں باب میں دیکھیں گے۔)

    وہ تمام کوششیں جو پچھلے پچاس برس سے کائنات کی ایک حقیقی تصویر کو بیان کرنے کے لئے ہو رہی تھیں وہ تمام فضیحت کے ساتھ ناکامی سے دوچار ہو رہی تھیں۔تصوراتی طور پر اسے سمجھنا آسان ہے۔ عمومی اضافیت اور کوانٹم کا نظریہ دونوں ایک دوسرے سے ہر طرح سے الگ اور مختلف ہیں۔ عمومی اضافیت بڑے اجسام جیسا کہ بلیک ہول، بگ بینگ ، کوزار اور پھیلتی ہوئی کائنات کے بارے میں ہے۔ اس کی بنیاد ریاضیاتی طور پر ہموار سطح جیسا کہ بستر کی چادر اور ترپال کے جالوں جیسی چیزوں پر ہے۔ کوانٹم نظریہ اس سے بالکل ہی مختلف ہے – یہ بہت ہی چھوٹی چیزوں کے جہاں سے نمٹتا ہے یعنی کہ جوہر، پروٹون،نیوٹران اور کوارک۔ اس کا انحصار توانائی کے مجرد بنڈلوں کے نظریہ پر ہے جس کو کوانٹا کہتے ہیں۔ اضافیت کے برعکس، کوانٹم کا نظریہ کہتا ہے کہ واقعات کے امکانات کا صرف حساب ہی لگایا جا سکتا ہے، لہٰذا ہمیں کبھی درست طرح معلوم نہیں ہوگا کہ الیکٹران کہاں پر واقع ہے۔ یہ دونوں نظریات مختلف ریاضی، مختلف مفروضوں، مختلف طبیعیاتی اصولوں اور مختلف حلقہ اثر رکھتے ہیں۔ ان دونوں کو ہم آہنگ کرنے کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں تھیں۔ 

    طبیعیات کی دنیا کے بڑے - ارون شروڈنگر ، ورنر ہائیزن برگ، وولف گینگ پاؤلی اور آرتھر ایڈنگٹن جو آئن سٹائن کے نقش قدم پر چلے تھے اور انہوں نے وحدتی میدانی نظرئیے کو بنانے میں اپنے ہاتھ صاف کیے تھے بہت ہی بری طرح سے ناکامی سے دوچار ہوئے ۔ ١٩٢٨ء میں آئن سٹائن نے حادثاتی طور پر ذرائع ابلاغ میں اس وقت افراتفری مچا دی جب اس نے اپنے وحدتی نظرئیے کے ابتدائی نمونے کو پیش کیا۔ نیویارک ٹائمز نے تو یہاں تک کیا کہ اس کی مساوات کو بھی شایع کر دیا۔ سو سے زیادہ صحافیوں نے اس کے گھر کے باہردھاوا بول دیا تھا۔ انگلستان سےایڈنگٹن نے آئن سٹائن کو لکھا، "آپ یہ بات جان کر حیران ہوں گے کہ ہمارےلندن کے عظیم ڈیپارٹمنٹل اسٹور(سیلفرجز) نے اپنی کھڑکی پر آپ کا مقالہ (چھ صفحات ایک کے بعد ایک چپکائے ہوئے تھے ) تاکہ آنے جانے والے اس کو مکمل طور پر پڑھ سکیں۔ کافی سارا مجمع اس کو پڑھنے کے لئے جمع ہو گیا ہے۔"

    ١٩٤٦ء میں ارون شروڈنگر کو بھی اسی طرح کے ایک کیڑے نے کاٹا اور وہ سمجھا کہ اس نے ایک افسانوی وحدتی میدانی نظرئیے دریافت کرلیا۔ جلدی میں اس نے کچھ ایسا کر لیا جو اس دور کے لحاظ سے مناسب نہیں تھا( لیکن وہ کام آج کے دور میں کوئی بڑی بات نہیں ہے) یعنی کہ اس نے پریس کانفرنس بلا لی۔ آئر لینڈ کے وزیر اعظم ایمون ڈی والیرا بھی اس کی کانفرنس سننے کے لئے چلے آئے تھے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ کس حد تک اس بارے میں پر امید ہے کہ بالآخر اس نے وحدتی میدانی نظریہ حاصل کر لیا ہے، تو اس نے جواب دیا، " میں سمجھتا ہوں کہ میں درست ہوں۔ میں اس وقت انتہائی احمق لگوں گا اگر میں غلط ہوا۔" (نیویارک ٹائمز نے آخر کار اس کی پریس کانفرنس کے بارے میں جان کر اس کی تفصیلات کو آئن سٹائن اور دوسروں کو تبصرے کے لئے بھیج دیا۔ بدقسمتی سے آئن سٹائن سمجھ گیا کہ شروڈنگر نے ایک پرانے نظرئیے کو دوبارہ سے دریافت کر لیا ہے جو اس نے ایک برس پہلے ہی پیش کیا تھا اور پھر اس کو رد کر دیا تھا۔ آئن سٹائن نے نہایت حلم سے اس کا جواب دیا تھا لیکن شروڈنگر کی کافی بے عزتی ہو گئی تھی۔)

    ١٩٥٨ء میں طبیعیات دان جیریمی برنسٹین نے کولمبیا یونیورسٹی میں ہونے والی ایک بحث سنی جہاں وولف گنگ پاؤلی اپنا وحدتی میدانی نظرئیے پیش کر رہا تھا جو اس نے ورنر ہائیزن برگ کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔ نیلز بوہر سامعین میں موجود تھا اور اس نظریئے سے بالکل بھی متاثر نہیں تھا۔ بالآخر اس سے رہا نہیں گیا اور وہ اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا اور بولا، "ہم پیچھے بیٹھے ہوئے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ تمہارا نظریہ پاگل پنے کا ہے۔ لیکن جس چیز نے ہمیں آپس میں تقسیم کر دیا ہے وہ یہ کہ اس پاگل پن کی حد کیا ہے۔"

    پاؤلی نے فوراً ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ بوہر کا کیا مطلب تھا - ہائیزن برگ اور پاؤلی کا نظریہ بہت ہی زیادہ روایتی تھا، وہ اتنا عام سا تھا کہ وہ کسی طور عظیم وحدتی میدانی نظریہ کے قابل نہیں تھا۔ "خدا کی حکمت کو جاننے" کا مطلب تھا کہ کچھ بہت ہی الگ طرح کی ریاضی اور خیال ہونا چاہئے تھا۔

    طبیعیات دانوں کی کثیر اس بات پر متفق ہے کہ ایک سادہ، نفیس اور قائل کر دینے والا خیال ہر شئے کے پیچھے ہوگا جو خود سے ہی ایک پاگل پن اور سچ ہونے کے لئے کافی دور کی کوڑی ہے۔ پرنسٹن کے جان وہیلر اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ انیسویں صدی میں زمین پر حیات کی نوع میں تنوع پایا جانا مایوس کن خیال مانا جاتا تھا ۔ لیکن اس کے بعد چارلس ڈارون نے قدرتی چناؤ کے طریقے کو متعارف کروایا اور ایک ہی نظرئیے نے حیات کے ماخذ اور اس میں ہونے والی تنوع کو بیان کرنے کا بنیادی ڈھانچہ پیش کر دیا۔

    نوبیل انعام یافتہ اسٹیون وائن برگ نے ایک مختلف استعارہ استعمال کیا۔ کولمبس کے بعد ابتدائی یوروپی مہم جوؤں کے بنائے ہوئے مفصل نقشوں نے اس بات پر پر زور اسرار کیا کہ "شمالی قطب" کو موجود ہونا چاہئے لیکن اس کا کوئی بلاواسطہ ثبوت نہیں تھا۔ کیونکہ دنیا کا ہر نقشہ ایک بہت بڑے رخنہ کو دکھاتا تھا جہاں پر شمالی قطب کو موجود ہونا چاہئے، ابتدائی کھوجیوں نے صرف اس بات پر انحصار کیا کہ وہاں پر ضرور قطب شمالی ہونا چاہئے ہرچند کے اس میں سے کسی نے وہاں کا کبھی سفر نہیں کیا تھا۔ بعینہ ایسے طبیعیات دان آج ، ابتدائی کھوجیوں کی طرح کافی سارے ثبوت حاصل کر چکے ہیں جو ہر شئے کے نظرئیے کی جانب اشارہ کر رہے ہیں، بہرصورت سردست اس بات پر کوئی بھی آفاقی اتفاق رائے قائم نہیں ہو سکا کہ اس نظرئیے کو کیسا ہونا چاہئے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ایم – نظریہ Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top