Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    ہفتہ، 28 مئی، 2016

    اسٹرنگ کی سواری



    ١٩٨٤ء میں اسٹرنگ نظرئیے کی مخالفت میں اچانک کمی آ گئی۔ کالٹک کے جان شیوارز اور اس وقت کوئین میریز کالج، لندن کے مائیک گرین نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ اسٹرنگ نظریہ ان تمام عدم مطابقتوں سے مبرا ہے جس نے دوسرے تمام نظریات کو ختم کر دیا تھا۔ طبیعیات دان پہلے ہی جانتے تھے کہ اسٹرنگ کا نظریہ ریاضیاتی بے ضابطگیوں سے پہلے ہی سے آزاد تھا۔ لیکن شیوارز اور گرین نے اس بات کا بھی مظاہرہ کیا کہ یہ تمام بے قاعدگیوں سے بھی آزاد ہے۔ نتیجتاً، اسٹرنگ کا نظریہ ہر شئے کے نظرئیے کے لئے ایک ابھرتا ہوا امیدوار بن گیا اور آج یہ صرف اکیلا ہی ایسا امیدوار ہے۔

    اچانک ہی سے ایک ایسا نظریہ جس کو مردہ تصوّر کر لیا گیا تھا اس میں یکدم سے دوبارہ روح پھونک دی گئی تھی۔ ایک فضول نظریئے سے اسٹرنگ نظریہ اچانک ہی ہر شئے کے نظرئیے میں تبدیل ہو گیا تھا۔ طبیعیات دانوں کے جم غفیر گھبراہٹ میں اسٹرنگ کے نظرئیے پر لکھے گئے مقالات کو پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ پوری دنیا کی تحقیقاتی تجربہ گاہوں سے مقالات ابل پڑے تھے۔ وہ پرانے مضامین جو لائبریری میں مٹی اور گرد سے اٹے ہوئے تھے یکدم سے طبیعیات کی دنیا میں گرما گرم موضوع بن گئے تھے۔ متوازی کائناتوں کا تصوّر جو انتہائی غیر حقیقی سمجھا جاتا تھا اب طبیعیات کی دنیا کا محور بن گیا تھا۔ سینکڑوں کانفرنسیں اور دسیوں ہزار ہا مقالات اس موضوع کے لئے مختص کر دیے گئے تھے۔

    (اکثر چیزیں اس وقت ہاتھ سے نکل جاتی تھیں جب کچھ طبیعیات دانوں کو نوبیل انعام کا بخار چڑھ جاتا تھا۔ اگست ١٩٩١ء ، ڈسکوور میگزین نے تو یہاں تک اپنے سرورق پر ایک سنسنی خیز عنوان بھی لگا دیا تھا :" نیا ہر شئے کا نظریہ: ایک طبیعیات دان کائنات کی آخری پہیلی سے نمٹتا ہے ۔" مضمون نے ایک طبیعیات دان کا فقرہ لکھا جو شہرت و قسمت کی معراج پر پہنچنے کے لئے بہت زیادہ بیتاب ہو رہا تھا۔: "میں کوئی شرمیلا نہیں ہوں۔ اگر یہ چل گیا تو اس میں ایک نوبیل انعام موجود ہوگا،" اس نے شیخی بگھاری ۔ جب اسٹرنگ کے نظریہ کو اس تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ یہ ابھی اپنے عہد طفلی میں ہے تو اس نے جوابی حملہ کیا، "اسٹرنگ کا سب سے بڑا مدعی کہہ رہا ہے کہ اسٹرنگ کو ثابت کرنے میں چار سو برس لگیں گے، لیکن میں ان سے کہوں گا کہ چپ ہو جاؤ۔")

    خزانے کی کھوجنے کی تلاش شروع ہو گئی تھی۔


    بالآخر "سپر اسٹرنگ کی سواری" کی مخالفت بھی ہونی شروع ہو گئی۔ ہارورڈ کے ایک طبیعیات دان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اسٹرنگ نظریہ تو طبیعیات کی شاخ ہی نہیں ہے، بلکہ یہ تو مذہب بھی نہیں بلکہ صرف خالص ریاضیاتی یا فلسفہ ہے۔ ہارورڈ کے نوبیل انعام یافتہ شیلڈن گلاشوو اس مخالفت کی کمان سنبھالے ہوئے تھے۔ وہ سپر اسٹرنگ کی سواری کا تقابل اسٹار وار پروگرام سے کرتے ہیں(جس نے وسیع ذرائع کا استعمال تو کیا لیکن اس کی کبھی جانچ نہیں ہو سکی۔) گلاشوو کہتے ہیں کہ اصل میں وہ اس بات پر بہت خوش ہیں کہ کافی نوجوان طبیعیات دان اسٹرنگ کے نظریہ پر کام کر رہے ہیں ، کیونکہ، اس پر کام کرنے سے وہ اپنے بالوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ جب ان سے ویٹن کے اس تبصرے کے بارے میں پوچھا گیا کہ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ اسٹرنگ کا نظریہ اگلے پچاس برس تک طبیعیات کی دنیا پر غالب رہے بعینہ جیسے کوانٹم میکانیات نے پچھلے پچاس برسوں پر اپنا سکہ جمائے رکھا ہے۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ اسٹرنگ کا نظریہ طبیعیات کی دنیا میں ایسے ہی اپنا غلبہ قائم رکھے گا جیسے کہ کلازا کلین نظریہ ( جس کو وہ "خبطی "سمجھتا ہے ) نے پچھلے پچاس برس تک طبیعیات کی دنیا پر اثر ڈالا ، جو کہ ظاہر ہے کہ کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ اسٹرنگ کے طبیعیات دان ہارورڈ میں داخل نہ ہوں۔ لیکن جس طرح سے طبیعیات دانوں کی اگلی نسل اسٹرنگ کے نظریہ پر منتقل ہو رہی ہے اس سے نوبیل انعام یافتہ آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز کی طرح بن گئی ہے۔ (ہارورڈ نے اس کے بعد سے کافی نوجوان اسٹرنگ نظریوں کو بھرتی کیا ہے۔)
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: اسٹرنگ کی سواری Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top