Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    اتوار، 1 مئی، 2016

    فوسلز (رکازات) کی تلاش

    کیا آپ جانتے ہیں ؟ 2006 ء میں ہونے والی ایک تحقیق نے عندیہ دیا ہے کہ ابھی تک صرف ڈائنوسارس کی 28 فیصد نسلیں ڈھونڈی گئی ہیں؟ 


    قبل از تاریخ کی باقیات کو کس طرح سے نکالا جاتا ہے اور ان سے سائنس دان کیا سیکھ سکتے ہیں ؟ ہم آپ کو اس کی حقیقت بتاتے ہیں ۔ ۔ ۔ 



    19 ویں صدی کی ابتداء میں جب سے میری ایننگ نے پہلی مرتبہ جراسک جانوروں کے فوسلز کو جوڑنا شروع کیا تب سے سائنس دان جانتے جا رہے ہیں کہ ڈائنوسارس نے دنیا پر کروڑوں برس پہلے حکمرانی کی ہے۔ زمین کی گہرائی میں عرصہ دراز سے دفن لاتعداد معدوم مخلوق کی باقیات انتظار کررہی ہیں کہ ان کو ماہرین رکازات ڈھونڈیں جو بتدریج ان کے رازوں سے پردہ اٹھا رہے ہیں۔ 

    ڈائنوسارس اور قبل از تاریخ کے دوسرے رکازات ہزار ہا برس سے پوری دنیا میں دریافت ہوتے رہے ہیں، چین میں پائی جانے والی 'ڈریگن کی ہڈیوں ' کی اطلاعات عندیہ دیتی ہیں کہ وہ ابتدائی طور پر پائے جانے والے ڈائنوسارس میں ہی سے کچھ تھے۔ بہرحال یہ صرف18 ویں اور 19 ویں صدی کے روشن فکر لائق سائنس دان ہی تھے جنہوں نے واضح کیا کہ یہ قدیمی ڈھانچے کس قدر پرانے ہیں۔ 

    بہت عرصہ پہلے عجیب معدوم 'چھپکلی' کے پوری دنیا میں مختلف جگہوں پر دریافت ہونے کے بعد رکازات کی تلاش شوقیہ اور نیچرلسٹ کے درمیان ایک جنون بن گئی تھی۔ 

    اگرچہ زمین کے اندر گھس جانے والے ریڈار اب آثار قدیمہ کے ماہرین کی مدد زیر زمین چھپی ہوئی باقیات کو تلاش کرنے میں دیتے ہیں تاہم جدید ماہرین رکازات اب بھی 19 ویں صدی کے اپنے پیش رو کے طریقوں پر ہی انحصار کرتے ہیں یعنی کہ خالص قسمت کی یاوری پر۔ بلاشبہ ارضیات اور نام نہاد رکازات کے ہاٹ سپاٹ کی بہتر سمجھ کے ساتھ یہ ممکن ہو گیا ہے کہ اندازہ قائم کیا جا سکے کہ ان کے پانے کا امکان کہاں زیادہ ہے۔ ایک مرتبہ رکاز کی جگہ کی شناخت ہو جائے تو پھر ڈائنوسارس کی باقیات کو نکالنے کا لمبا اور نازک عمل شروع ہو جاتا ہے۔ 

    رکازات کی کھدائی ریت میں سے چھنائی کرنے اور رسوب میں ننھے دانتوں کی تلاش کرنے جتنا سادہ بھی ہو سکتی ہے، یا پھر بڑی چٹانوں کو ہتھوڑے اور چھینی کی مدد سے توڑ کر دیکھا جاتا ہے کہ اندر کیا پڑا ہے۔ پہاڑیاں، کانیں، پہاڑی ڈھلانیں اور گھاٹیاں رکازات پائے جانے والی اہم جگہیں ہیں کیونکہ چٹانوں کی گہری پرتیں کروڑ ہا برس کے کٹاؤ کے بعد ہی بے نقاب ہوتی ہیں۔ ان صورتوں میں بھاری کھودنے اور سوراخ کرنے والی مشینیوں کو تلاش کی جگہ پر پہنچانا انتہائی اہم ہوتا ہے۔ کھدائی کے دوران درجنوں سائنس کے طالبعلم بلکہ پرجوش رضاکار برش اور کھرپیوں سے لیس ہو کر مصروف تلاش ہوتے ہیں۔ تاہم نمونوں کی نازکی کی وجہ سے کہ وہ کروڑ ہا برس پرانے ہیں اکثر پورے ڈائنوسارس کے ڈھانچے کو حفاظت سے اوپر آنے میں مزید دسیوں لاکھ برس لگ جاتے ہیں۔ 

    بلاشبہ ماہرین رکازیات پرانی ہڈیوں کو کھودنے کے علاوہ بھی کافی کام کرتے ہیں۔ ارضیات اور حیاتیات کے مضامین ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مخلوط رکازیات بناتے ہیں جو زمین پر زندگی کی تاریخ کو ظاہر کرنے کے رکازات کا مطالعہ کا نام ہے۔ لہٰذا ایک مرتبہ جب رکازات کی باقیات مکمل طور پر کھود کر نکال لی جاتی ہیں تو اصل کام تجربہ گاہ میں شروع ہوتا ہے۔ یہاں سائنس دان سخت محنت کے بعد نمونوں میں سے مٹی و پتھر کا باقیات کو الگ کرتے ہیں تاکہ مکمل طور پر اس کا تجزیہ کر سکیں برقی خرد بین، کیٹ اسکینرز اور ایکس رے مشینیں تمام کی تمام کو مخلوق کی معلومات حاصل کرنے کے لئے ممکنہ حد تک استعمال کیا جاتا ہے۔ 

    سراپے، لمبائی اور ہر رکازی ہڈی کی ترتیب کا مطالعہ کر کے ماہرین رکازیات اس قابل ہو جاتے ہیں کہ نہ صرف اس بات کا تعین کر سکیں کہ کچھ ڈائنوسارس کس طرح کے دکھائی دیتے ہوں گے بلکہ وہ کس طرح چلتے ہوں گے اور کیا کھاتے ہوں گے۔ رکازی بازو کی ہڈیوں میں دندانے بعینہ عصر حاضر کے پرندوں جیسے ہیں جو اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ ڈائنوسارس کی کئی اقسام اصل میں پروں والی ہوں گی۔ 

    بڑے سے بڑی، عجیب سے عجیب تر بلکہ اور زیادہ ناقابل یقین ڈائنوسارس کی دریافتیں ہر وقت ہوتی رہی ہیں، جن میں سے ہر نئی دریافت ماضی کی نظریات کو تبدیل کرنے پر مجبور کرتی ہیں اور دور دراز کی دنیا کے میان حیاتیہ (قدیم حیاتی دور اور نو حیاتی دور کے درمیانی دور سے مُتعَلِق) کے جانوروں پر مزید نئی روشنی ڈالتی ہے۔ ماضی کے سائنس دانوں اور جوشیلوں کے اہم کام کی بدولت ہر نیا پایا جانے والا رکاز قبل از تاریخ کے آڑے کٹے معمے کے حل کا ایک نیا ٹکڑا ثابت ہو رہا ہے۔ 



    اہم رکازات کے بارے میں پانچ اہم حقائق


    1۔ ہماری پیاری اصلیت 

    2004 ء میں دریافت کیا گیا ٹیکٹالک ارتقائی سائنس کے لئے سب سے اہم دریافت تھی، کیونکہ یہ آبی اور زمین پر رہنے والی حیات کے درمیان کچھ 37 کروڑ 50 لاکھ برس پہلے ایک عبوری رابطہ تھا۔ 

    2۔ کیا یہ ایک پرندہ ہے 

    سب سے پہلے جرمنی میں پایا گیا اوبی طائر (آرکیوپٹریکس) کا حجری نمونہ ڈائنوسارس اور پرندوں کے درمیان عبوری انواع کے ہونے کا عندیہ دیتی ہے۔ ایسی اشارے موجود ہیں کہ مخلوق کے پر بھی تھے اور وہ درختوں پر چڑھنے کے قابل بھی تھا۔

    3۔ ارتقائی ربط 

    سمجھا جاتا ہے کہ حیوانات رئیسہ اور انسانوں میں کھویا ہوا ربط ہومو ایرگاسٹر میں پایا جاتا ہے، وہ پہلا رکاز جس کا نام ترکان لڑکا رکھا گیا۔ ہومو ایرگاسٹر دو پیروں پر چلتا تھا۔

    4۔ خالی جگہ میں رنگ بھریں 

    سائنو ساروپٹیریکس کے پروں کے رکاز نے رنگوں کو بنانے کے مادّوں کو ظاہر کیا ہے۔ سائنس دانوں نے اندازہ لگایا کہ مخلوق کی گہری سرخ بھوری دم تھی۔ 

    5۔ مادری جبلت 

    دیوہیکل مایاسارا کے گھونسلے کی دریافت جس میں شیرخوار رکازی نمونے بھی شامل ہیں تصدیق کرتے ہیں کہ کچھ ڈائنوسارس میں مادری جبلت بھی تھی اور وہ اپنے بچوں کو انڈے میں سے نکلنے کے بعد بھی پالتے تھے۔ 

    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: فوسلز (رکازات) کی تلاش Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top