Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    اتوار، 29 مئی، 2016

    خون خوار مچھلی




    بظاہر عظیم سفید شارک اور پرینہا ایک جیسی تو بالکل بھی نہیں ہیں۔ ایک ٹھنڈے بحری پانی میں رہتی ہے جبکہ دوسری جنوبی امریکہ کے آبی راستوں اور جھیلوں میں رہتی ہے۔ ایک مجرد زندگی کو پسند کرتی ہے جبکہ دوسری جھنڈ میں رہنا پسند کرتی ہیں۔ عظیم سفید شارک میں سب سے بڑی چھ میٹر (20 فٹ) تک لمبی ہو سکتی ہیں جبکہ پریہنا 40 سینٹی میٹر یا (16 انچ) تک لمبی ہو سکتی ہیں۔ تاہم ان میں ایک چیز مشترک ہو سکتی ہے : خوفناک فلموں نے ان کی شہرت کو تباہ کر دیا ہے۔ بلاشبہ ایک اور خاصیت دونوں مچھلیوں میں ایسی مشترک ہے جو ان کو بدنام زمانہ بناتی ہے : متاثر کن پیسنے والے دانتوں کی جوڑیاں۔ سفید شارک کے برعکس، پریہنا کے جبڑوں میں صرف ایک قطار ہوتی ہے تاہم یہ بات اسے کم تر نہیں بناتی۔ ہر دانت ریزر کی طرح تیز دھار اور مثلثی ہوتا ہے اور یہ قینچی کی طرح لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ جبڑا بہت ہی طاقت ور پٹھوں کے ساتھ ہوتا ہے جو زبردست چبانے کی طاقت دیتا ہے۔ مل کر ان تمام باتوں کی مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنے شکار کو پکڑ لیتے ہیں اور اس کے گوشت کے ٹکڑے آسانی کے ساتھ کر لیتے ہیں۔ 

    تاہم صرف اس کے لئے کہ ان کے پاس ترکیبی ذارئع ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ متواتر لوگوں کو ان کی ہڈیوں سے محروم کرنے کے لئے ڈھونڈتی پھرتی ہیں۔ انسانوں پر حملے کرنے کے مندرج واقعات شاذو نادر ہیں - اگر کوئی بات ہے تو وہ یہ کہ انہیں ہم سے خطرہ ہے کیونکہ ایمیزون کے رہنے والوں کی یہ پسندیدہ خوراک ہے۔ عام طور پر وہ اپنے سے چھوٹوں زیادہ طور پر دوسری مچھلیوں اور کیڑوں کا شکار کرتی ہیں، اس کے علاوہ وہ نہروں میں پہنچنے والے مردہ جانوروں کی صفائی بھی کرتی ہیں۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ وہ موقع پرست ہیں، لہٰذا اگر کوئی ہرن یا خرطوم دار ندی کو پار کرتے ہوئے مٹی میں پھنس جائے تو ضیافت کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ جھنڈ میں رہنے سے نہ صرف تعداد میں محفوظ رہ سکتی ہیں بلکہ جب خوراک کی تلاش کرتی ہیں تو ان کو کامیابی کا زیادہ امکان ملتا ہے۔ عام طور پر وہ طلوع فجر یا نیم تاریکی میں 20 سے 30 انفرادی مچھلیوں کے گروہ میں گھاس کے سائے میں رہ کر شکار کرتی ہیں - تاہم جب موسم گرما میں پانی کی سطح گر جاتی ہے تو گروہ کا حجم دوگنا ہو جاتا ہے۔ 

    مچھلیاں پیچیدہ رابطوں کی صلاحیت کا بھی اظہار کرتی ہیں، اپنے تیرنے والے پروں کو مرتعش کر کے مختلف 'بھونک' اور 'آواز' پیدا کرتی ہیں۔ یہ آواز کے مظاہرے گروہ کے اندر نسل کو آگے بڑھانے اور خوراک کے حقوق پر ہونے والے تنازعات سے خاص طور پر بچاؤ کے لئے بہترین ہوتے ہیں۔ 


    کیا آپ جانتے ہیں ؟

    'پرینہا' کا نام برازیلی مقامی ٹوپی زبان سے مچھلی ('پری') اور دانت ('رینہا') سے نکلا ہے۔ 


    ایمیزونی قاتل 

    پرینہا کی خون کی پیاسی کے طور پر شہرت کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ تھیوڈور روزویلٹ کے برازیل کے 1913ء کے دورے سے ہوئی تھی۔ اپنے اس دورے کے دوران کہا جاتا ہے کہ اس نے گائے کے ڈھانچے کو مچھلیوں کو سیکنڈوں میں اڑاتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس نے اپنے اس تجربے کی بابت اپنی کتاب برازیل کے بیابانوں میں سے گزرتے ہوئے میں ذکر کیا جو اگلے برس شایع ہوئی تھی۔ اس نے انھیں ایسا بیان کیا: '۔ ۔ ۔ دنیا کی سب سے خون خوار مچھلی [۔ ۔ ۔ ] وہ پانی میں غفلت سے ڈالے ہاتھ سے انگلی کو چبا جائیں گی، وہ تیراکوں کو مسخ کر دیتی ہیں [۔ ۔ ۔ ] وہ کسی بھی غافل زخمی آدمی یا جانور کو زندہ نگل سکتی ہیں۔ ' اس کے تجربے کی درستگی میں کافی شک و شبہات اٹھائے گئے ہیں تاہم بدنامی تو جڑ ہی گئی ہے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: خون خوار مچھلی Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top