Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعرات، 1 ستمبر، 2016

    آسمان کہاں تک ہے؟




    ایڈمنڈ ہیلے تاریخ کا وہ پہلا فلکیات دان ہے جس نے اس بات کا احساس کرلیا تھا کہ ستارے حرکت میں ہیں۔ کیونکہ ستارے ایک دوسرے کی نسبت حرکت کرتے ہیں وہ مختلف روشنی والے اجسام نہیں ہو سکتے جو تمام کے تمام زمین کے ارد گرد کسی عظیم اندرونی کرے کی سطح کے اندر سختی سے جڑے ہوں۔ ستاروں کی حرکت کا ثبوت یہ ہے کہ ستارے ہم سے مختلف فاصلوں پرخلاء کی تینوں جہتوں میں پھیلے ہوئے ہیں ۔اٹھارویں صدی کی ابتداء میں جب ہیلے نے یہ دریافت کی، یہ ستاروں کی تصویر کا پہلا براہ راست مشاہداتی ثبوت تھا کہ اس طرح سے ستاروں کی شبیہ، جس کرے کے ساتھ منسلک تھی وہ زحل کے مدار سے تھوڑا سا بڑا تھا (یورینس اس وقت تک دریافت نہیں ہوا تھا) لازمی طور پر غلط ہونی چاہئے تھی۔ اس دریافت نے بعد میں اٹھارویں صدی کے فلسفیوں جیسا کہ رائٹ اور کانٹ کے لئے ملکی وے کی ماہیت کے بارے میں اندازہ لگانے کے لئے راستہ ہموار کیا؛ اس سے کائنات کے حجم کے بارے میں تفہیم کے بارے میں براہ راست لیکن بتدریج رہنمائی ہوئی۔


    ہیلے کی کائنات 


    ہیلے اپنی اس دریافت سے پہلے ہی ایک صاحب عزت مقدم فلکیات دان بن چکا تھا جس کے پاس پر منفعت پیشہ موجود تھا۔ وہ 1656ء میں پیدا ہوا، اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، جہاں اس نے ایک کتاب جوہانس کیپلر کے دریافت کردہ ان قوانین پر لکھی اور شایع کی جو سورج کے گرد سیاروں کے مدار کو بیان کرتے ہیں۔ کیپلر کے قوانین نے آئزک نیوٹن کو قوّت ثقل کے بارے میں اہم اشارے دیئے؛ ہیلے کی کتاب اتنی اثر دار تھی (اس لحاظ سے بری نہیں تھی کہ اس کو ایک سند حاصل کرنے والے نے سند حاصل کرنے سے پہلے لکھا تھا) کہ اس کے مصنف کو جان فلمسٹیڈ کی توجہ دلانے میں کامیاب ہو گئی، جو اس وقت شاہی فلکیات دان تھا (سب سے پہلا اور حقیقت میں 'فلکیاتی مشاہد' کہلاتا تھا)۔یہی وجہ تھی کہ جب ہیلے نے آکسفورڈ کو اپنی تعلیم مکمل کئے بغیر چھوڑا تو فلمسٹیڈ کی دلچسپی نے اس کو فلکیات میں نوکری حاصل کرنے میں مدد دی، جہاں وہ جنوبی بحراوقيانُوس میں واقع جزیرہ سینٹ ہیلینا گیا اور جنوبی نصف کرہ کے آسمان کے ستاروں کے نقشے بنانے میں دو برس لگائے۔ اس کی انگلستان واپسی 1678ء میں ہوئی، اور وہ صرف بائیس برس کی عمر میں رائل سوسائٹی میں فوری منتخب ہو گیا۔ تاہم ہیلے نے تعلیمی مستقبل پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔

    اگلے تیس برسوں میں اس کی مہم جوئی میں یورپ کا سفر شامل تھا جہاں وہ سائنس دانوں اور فلکیات دانوں سے ملا، کافی عرصہ چیسٹر میں واقع ' منٹ' میں بطور نائب ناظم کے فرائض انجام دیئے، شاہی بحریہ کے جنگی جہازوں کے کمانڈر کا ہاتھ بٹایا، اور کچھ سفارتی مقاصد کو پورا کرنے کے لئے سرکاری حکومت کے نائب کے طور پر ویانا بھی گیا۔ اس دوران اس نے مقناطیسیت، ہوا، مدوجزر کی لہروں کو سمجھنے کے لئے اہم حصّہ ڈالا، اور اس نے نیوٹن کو اس کی کتاب اصول کو مکمل طور پر شایع کرنے کے لئے راغب کیا - بلکہ ہیلے نے تو اس کتاب کو شایع کروانے کے لئے سرمایہ بھی فراہم کیا۔ 1703ء میں وہ آکسفورڈ میں جیومیٹری کا پروفیسر بن گیا (ایک سند حاصل کرنے کے عمل کو چھوڑنے والے کے لئے یہ کوئی بری نوکری نہیں تھی) اور 1720ء میں وہ فلمسٹیڈ کے جانشین کے طور پر شاہی فلکیات دان مقرر ہوا، اور اس عہدے پر وہ اس وقت تک قائم رہا جب تک وہ پچاسی برس کی عمر میں 1742ء میں انتقال نہیں کر گیا۔ اٹھارویں صدی کے شروع کی دو دہائیوں میں ہیلے نے ستاروں کے بارے میں ہمارے جاننے کی تفہیم میں اپنا حصّہ ڈالا۔

    ہیلے کی ہمیشہ سے قدیمی فلکیاتی دستاویزات میں دلچسپی رہی تھی اور اس نے کچھ کام یونانی زبان سے بھی ترجمہ کیا تھا۔ 1710ء میں اس نے بطلیموس کی تحریروں کا مطالعہ شروع کیا جو دوسری صدی قبل مسیح میں لکھی گئی تھی اور اس میں ستاروں کے مقام کی ایک فہرست بھی موجود تھی۔ حقیقت میں یہ فہرست بطلیموس سے بھی پرانی ہپارخس کے دور تیسری صدی قبل مسیح کی تھی۔ یہ ستاروں کا پہلا اہم نقشہ تھا جس میں آٹھ سو سے زائد ستاروں کا مقام موجود تھا؛ بطلیموس نے اس کو اچھے دنوں کے لئے محفوظ رکھا تھا، اور اس نے اس میں ستاروں کا مزید اضافہ کیا جس سے ان کی تعداد ایک ہزار سے اوپر ہو گئی۔ فہرست میں شامل زیادہ تر ستاروں کا مقام ہیلے اور اس کے ہم عصروں کے مشاہدات سے مطابقت رکھتے تھے۔ تاہم 1718ء ،میں ہیلے کو احساس ہوا کہ تین ستارے - سگ ستارہ، شعرائے شامی، اور آرکٹورس - اس مقام پر نہیں تھے جہاں پر ہیپارخس اور بطلیموس نے انہیں دیکھا تھا۔ مقامات میں فرق اس قدر زیادہ تھا کہ اس کو قدیمی یونانیوں کی غلطی نہیں کہا جا سکتا تھا؛ اس کے علاوہ یہ سوال بھی تھا کہ آیا کیوں انھوں نے سینکڑوں درست مشاہدات میں سے صرف تین میں غلطی کی ہے؟ مثال کے طور پر لگتا تھا کہ آرکٹورس پورے چاند کی چوڑائی سے دو گنا اس مقام سے دور تھا جو بطلیموس کی دستاویزات میں درج تھا - مقام سے ایک پورے درجہ کا فرق تھا۔ ہیلے نے اخذ کیا کہ آرکٹورس اور دوسرے ستاروں نے صدیوں میں اس مقام سے حرکت کی ہے جہاں یونانیوں نے انہیں درج کیا تھا۔ یہ حرکت اس قدر آہستہ تھی کہ انسانی زندگی کے دوران خالی آنکھ سے اس کا معلوم نہیں ہوگا، تاہم یہ اتنی بڑی ضرور ہے کہ کئی نسلوں کے گزرنے کے بعد اس کو دیکھا جا سکے۔

    پہلے تین ستاروں کے لئے ان خصوصی حرکت کے لئے، جیسا کہ اب انہیں کہا جاتا ہے، آسمان میں آٹھ روشن ستاروں کی شناخت کی گئی۔ اس اتفاق کی قدرتی توضیح یہ کی گئی کہ کیونکہ ستارے کافی روشن لگتے ہیں لہٰذا یہ ہم سے دوسرے زیادہ تر ستاروں سے زیادہ قریب ہیں، اس طرح سے ہم ان کی حرکت کو کچھ صدیوں کے دوران اسی وجہ سے دیکھ سکتے ہیں جس طرح سے اونچے آسمان میں مسافر بردار طیارہ آہستہ رینگتا ہوا نظر آتا ہے جبکہ سائیکل پر بیٹھا ہوا چند فٹ دور بچہ تیزی سے جاتا ہوا دکھائی دیتا ہے، لہٰذا آسمان میں قریبی ستارے بظاہر زیادہ حرکت ان ستاروں کے مقابلے میں کرتے نظر آتے ہیں جو زیادہ دور ہوتے ہیں چاہئے وہ سب کم و بیش ایک ہی رفتار سے خلاء میں حرکت کر رہے ہوں۔ ستاروں کی زیادہ تر تعداد اتنی دور ہے کہ ہزار برسوں کے دوران بھی زمین سے وہ کوئی حرکت کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے؛ صرف چند ہی اتنے قریب ہیں کہ ہم انہیں 'مستقل' ستارے کے پیش منظر میں حرکت کرتے ہوئے شناخت کر سکتے ہیں۔

    حرکت کا وہ حجم جس کو فلکیات دان اب روز مرہ کے معمول کی طرح ناپتے ہیں اس کو سمجھنے کی کوشش کرنا عرصہ دراز تک ممکنہ طور پر مشکل بنی رہی۔ چاند کا زاویہ آسمان پر لگ بھگ ایک آرک کا نصف درجہ یا 30 منٹ (زیادہ درست 31 منٹ) پر محیط ہوتا ہے۔ بعینہ جس طرح ہر زاویہ 60 منٹ میں تقسیم ہوتا ہے، اسی طرح آرک کا ہر منٹ بھی 60 سیکنڈ میں تقسیم ہوتا ہے۔ سیارہ مشتری ننگی آنکھ سے قابل ادراک قرص کے طور پر شناخت نہیں ہو سکتا، تاہم دوربینی مشاہدات بتاتے ہیں کہ جب وہ زمین سے قریب ترین ہوتا ہے تو وہ زیادہ روشن لگتا ہے اور وہ قوس کے صرف 50 سیکنڈ پر محیط ہوتا ہے۔ وہ ستارہ جس کی سب سے بڑی قابل پیمائش حرکت ہے وہ برنارڈ کا ستارہ کہلاتا ہے، اس کا نام امریکی فلکیات دان ایڈورڈ برنارڈ کے اعزاز میں رکھا گیا جس نے اس کو 1916ء میں دریافت کیا تھا۔ برنارڈ ستارہ واقعی بہت ہی دھندلا تھا کیونکہ اصل میں یہ ایک مدھم چھوٹا ستارہ تھا، یہی وجہ تھی کہ اس کو اس سے پہلے نہیں دیکھا گیا تھا۔ تاہم یہ ہم سے قریب بھی ہے - اتنا قریب ہے کہ یہ آسمان میں 10.3 سیکنڈ آرک فی برس کی زبردست رفتار سے دوڑ رہا ہے۔ یعنی کہ پانچ برسوں میں یہ اس قدر زاویائی فاصلے کے برابر حرکت کرتا ہے جو مشتری کی چوڑائی کے برابر ہوتا ہے۔ اور یہ واقعی منفرد بات ہے – پیمائش کردہ خصوصی حرکت عام طور پر ایک آرک کا ایک سیکنڈ فی برس ہے۔ ان ننھی حرکت خاص کو خلاء میں رفتار میں تبدیل کرنے کے لئے فلکیات دانوں کو کچھ ایسے طریقے ڈھونڈنے تھے جس کی مدد سے وہ ستاروں کے فاصلوں کا اندازہ لگا سکتے؛ تاہم اس سے پہلے انہیں نظام شمسی کے حجم کا درست اندازہ لگانا تھا۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: آسمان کہاں تک ہے؟ Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top