Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    پیر، 26 ستمبر، 2016

    ایک پراسرار کائناتی کہانی: کائنات کا وزن - حصّہ چہارم



    دونوں واقعات میں جو چیز آئن سٹائن نے سمجھ لی تھی وہ یہ کہ ثقلی میدان میں روشنی خمیدہ ہونے کا مطلب ہو سکتا ہے کہ اگر روشن اجسام کسی کمیت کی تقسیم کے درمیان حائل ہونے والی جسم کے پیچھے ہو، مختلف سمتوں میں جانے والی روشنی کی اشعاع حائل ہونے والی تقسیم کے ارد گرد خمیدہ ہو کر دوبارہ ایک نقطہ پر مرکوز ہوں گے، بالکل ایسے جیسا کہ وہ اس وقت کرتے ہیں جب وہ ایک عام عدسے میں اندر آتے ہیں، جس سے یا تو اصل جسم کو بڑا کر دیتا ہے یا پھر اصل جسم کی کئی نقول کو بناتی ہے، جس میں سے کچھ ہو سکتا ہے کہ بگڑی ہوئی ہوں (نیچے تصویر دیکھیں )۔ 

    جب اس نے پس منظر میں حائل ستارے کا دور دراز ستارے کے عدسے کے لئے اندازہ لگائے گئے اثرات کا حساب لگایا تو اثر اتنا چھوٹا تھا کہ وہ مطلق طور پر ناقابل پیمائش لگا، جس نے اسے یہ اوپر بتایا ہوا تبصرہ کرنے پر مجبور کیا - یعنی کہ اس کا امکان نہیں ہے کہ اس طرح کے کسی مظہر کا کبھی بھی مشاہدہ کیا جا سکے گا۔ نتیجتاً، آئن سٹائن نے سمجھا کہ اس کے مضمون کی عملی قدر کم ہو گی۔ جیسا کہ اس نے اس وقت سائنس کے مدیر کے نام اپنے تشریحی مراسلے میں لکھا: "مجھے اس چھوٹی اشاعت کے لئے، جو جناب مینڈل نے مجھ سے زبردستی لکھوایا، آپ اپنے تعاون کا شکریہ ادا کرنے دیں۔ اس کی کوئی خاص قدر نہیں ہے، تاہم یہ اس بیچارے لڑکے کو خوش کر دے گی۔ "

    بہرحال، آئن سٹائن فلکیات دان نہیں تھا اور اس بات کا کوئی بھی احساس کر سکتا ہے کہ آئن سٹائن نے جس اثر کا اندازہ لگایا نہ صرف وہ قابل پیمائش تھا بلکہ وہ مفید بھی تھا۔ اس کی افادیت ستارے کے پیچھے ستارے کے عدسے سے نہیں بلکہ اس کا اطلاق کافی بڑے نظام کے دور دراز اجسام کے عدسے جیسا کہ کہکشائیں یا بلکہ کہکشاؤں کے جھرمٹ پر کر کے حاصل ہوتی ہے۔ آئن سٹائن کی اشاعت کے چند ماہ کے اندر، کالٹک کے ذہین فلکیات دان فرٹز زویکی نے فزیکل ریویو میں ایک مقالہ جمع کروایا جس میں اس نے اس درست طور پر اس امکان کے عملی اطلاق کا مظاہرہ کیا (اور بلاواسطہ طور آئن سٹائن کو ستاروں کے بجائے کہکشاؤں کے ممکنہ عدسی اثر کے بارے میں زیر بار کیا)۔ 

    زویکی ایک چڑچڑا کردار اور اپنے وقت سے کہیں آگے تھا۔ 1933ء تک اس نے کوما جھرمٹ میں کہکشاؤں کی اضافی حرکت کا تجزیہ، نیوٹن کے حرکت کے قوانین کے استعمال کو کر کے کر لیا تھا، یعنی کہ کہکشائیں اتنی تیزی سے حرکت کر رہی تھیں کہ ان کو الگ الگ ہو جانے چاہئے تھا، اور جھرمٹ کو تباہ کر دینا چاہئے تھا تاوقتیکہ جھرمٹ میں مزید کمیت صرف ستاروں کی کمیت سے 100 گنا سے بھی زیادہ ہو۔ اس طرح اس کو صحیح طریقے سے تاریک مادّے کا دریافت کرنے والا سمجھنا چاہئے، اگرچہ اس کا استنباط اتنا شاندار تھا کہ زیادہ تر فلکیات دان غالباً یہ سمجھتے تھے کہ اس کے حاصل کردہ نتائج کی کچھ کم اجنبی وضاحت ہو گی۔ 

    1937ء میں زویکی کا ایک صفحے کا مقالہ بھی اتنا ہی قابل ذکر تھا۔ اس نے ثقلی عدسے کے تین مختلف استعمال تجویز کئے :(1) عمومی اضافیت کی جانچ، (2) حائل کہکشاؤں کو بطور ایک قسم کی دوربین کے طور پر استعمال کر کے دور دراز کے اجسام کو بڑا کرنا جو بصورت دیگر زمینی دوربینوں سے نظر نہیں آتے، اور سب سے اہم، (3) اس اسرار کو حل کرنا کہ آیا کیوں جھرمٹ بصری مادّے کو ملانے کے بعد بھی زیادہ بھاری نظر آتے ہیں :"سحابیہ کے قریب روشنی کے خمیدہ ہونے کے مشاہدات سحابیوں کے سب سے زیادہ براہ راست کمیت کا تعین کر سکتے ہیں اور مذکورہ بالا اختلاف کو دور کر سکتے ہیں۔ "

    زویکی کا مقالہ اب چوہتر برس کا ہو چکا ہے تاہم کائنات کی کھوج کے لئے ثقلی عدسے کے استعمال کی جدید تجویز لگتا ہے۔ اصل میں ہر ایک تجویز جو اس نے کی اس کو کامیاب ہونا تھا، اور آخری والی سب سے زیادہ اہم تھی۔ دور دراز کوزار کا حائل کہکشاؤں سے ثقلی عدسہ پہلی مرتبہ 1987ء اور 1998ء میں زویکی کے ثقلی عدسے کی مدد سے سحابیہ کو وزن کرنے کے اکسٹھ برس کے بعد مشاہدہ کیا گیا، بڑے جھرمٹ کی کمیت کا تعین ثقلی عدسے کے استعمال کو کر کے کیا گیا۔ 

    اس سال میں، طبیعیات دان ٹونی ٹائیسن اور اس کے رفقاء نے اب کالعدم بیل لیبارٹریز میں (جس کی سائنسی عظیم اور عالی شان اور نوبل انعام حاصل کرنے کی روایت ٹرانزسٹر کی دریافت سے پس منظر کی خرد امواج کی اشعاع کی دریافت تک رہی ہے ) ایک دور دراز کا بڑا جھرمٹ دیکھا جس کو رنگا رنگ نام CL 0024 +1654 دیا گیا تھا، اور جو لگ بھگ 5 ارب نوری برس دور تھا۔ ہبل خلائی دوربین سے لی گئی اس خوبصورت تصویر میں، دور دراز کہکشاں کی ایک سے زیادہ تصویر کی ایک شاندار مثال جو 5 ارب نوری برس کے فاصلے پر ایک جھرمٹ کے پیچھے موجود ہے ایک بہت زیادہ بگڑی ہوئی اور لمبوتری تصویر کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے جو بصورت دیگر عام طور پر گول کہکشائیں ہوتی ہیں۔ 

    اس تصویر کو دیکھ کر تخیل کے لئے ایندھن ملتا ہے۔ سب سے پہلے اس تصویر میں ہر نقطہ ایک ستارہ نہیں کہکشاں ہے۔ اور غالباً ہر کہکشاں میں 1 کھرب ستارے موجود ہیں جن کے ساتھ غالباً دسیوں کھربوں سیارے اور شاید کافی عرصے رہنے والی تہذیب بھی ہو گی۔ میں نے کہا کہ کافی پہلے ختم ہونے والی کیونکہ تصویر 5 ارب برس پرانی ہے۔ یہ روشنی لگ بھگ ہمارے سورج اور اس کے گرد زمین بننے سے 50 کروڑ پہلے خارج ہوئی تھی۔ تصویر میں شامل کئی ستارے اب باقی نہیں رہے ہوں گے، کیونکہ انہوں نے اپنا نیوکلیائی ایندھن ارب ہا برسوں پہلے ختم کر دیا ہو گا۔ اس کے آگے، بگڑی ہوئی تصویر درستگی سے دکھاتی ہے کہ جو زویکی دلیل دیتا تھا وہ ممکن تھی۔ تصویر کے مرکز کے بائیں طرف بڑی بگڑی ہوئی تصویر اس دور دراز کہکشاں کی بہت زیادہ بڑی (اور لمبی) کی گئی تصویر ہے، جو بصورت دیگر غالباً نظر ہی نہیں آتی۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ایک پراسرار کائناتی کہانی: کائنات کا وزن - حصّہ چہارم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top