Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 14 ستمبر، 2016

    ایک پراسرار کائناتی کہانی: آغاز - حصّہ پنجم



    میں نے اس کی وضاحت کے لئے مختلف طریقوں کی کوشش کی ہے، اور سچ بات یہ ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ایسا اچھا طریقہ ہے تاوقتیکہ کہ آپ کنویں کے مینڈک بن کر نہ سوچیں - اس صورت میں کائناتی کنویں سے باہر۔ یہ دیکھنے کہ لئے کہ ہبل کے قانون کا کیا مطلب ہے، آپ کو ہماری کہکشاں کے قریب بین فوقیت والے نقطے سے اپنے آپ کو ہٹانا ہو گا اور ہماری کائنات کو باہر سے دیکھنا ہو گا۔ اگرچہ سہہ جہتی کائنات کے باہر سے کھڑا ہو کر دیکھنا بہت مشکل لگتا ہے تاہم دو جہتی کائنات کے باہر کھڑا ہونا آسان ہے۔ اگلے صفحے پر میں نے ایک اس طرح کی پھیلتی ہوئی کائنات کو دو مختلف ادوار میں بنایا ہے۔ 
    آپ دیکھ سکتے ہیں، کہکشائیں دوسرے وقت میں ایک دوسرے سے اور دور ہیں۔ 

    ابھی تصور کریں کہ آپ کسی بھی ایک کہکشاں میں دوسرے وقت t2 میں رہ رہے ہیں جس کو میں سفید سے نشان t2 وقت پر لگاؤں گا۔ 
    یہ دیکھنے کے لئے کہ اس کہکشاں کے فوقیت والے نقطے سے کائنات کا ارتقاء کیسا ہو گا، میں نے سادے طور پر بائیں طرف والی تصویر کو دائیں والے سے منطبق کر دی ہے اور کہکشاں کو سفید کے اوپر رکھ دیا ہے۔ 
    مرحبا! اس کہکشاں کے فوقیت والے نقطے سے ہر دوسری کہکشاں دور جا رہی ہے، اور جو دو گنا دور ہیں وہ اسی وقت میں دو گنا دور ہو گئیں، جو تین گنا دور تھی وہ تین گنا زیادہ فاصلے پر ہو گئیں وغیرہ وغیرہ۔ جب تک کوئی کنارہ نہیں ہو گا کہکشاؤں پر موجود محسوس کریں گے کہ وہ پھیلاؤ کے مرکز میں ہیں۔ 
    اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی کون سی کہکشاں کا انتخاب کرتا ہے۔ ایک اور کہکشاں لیں، اور عمل کو دہرائیں : آپ کے نقطہ نگاہ کے لحاظ سے اس وقت یا تو ہر چیز کائنات کا مرکز ہے، یا پھر کوئی بھی جگہ نہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 

    ہبل کی کائنات پھیلتی کائنات کے مطابق ہے۔ 

    اب جب ہبل اور ہماسن نے پہلی مرتبہ 1929ء میں اطلاع دی کہ انہوں نے نہ صرف فاصلے اور دور جاتی ہوئی سمتی رفتار کے درمیان ایک خطی تعلق کا بتلایا ہے بلکہ انہوں نے پھیلاؤ کی شرح کے بارے میں بھی خود سے مقداری تخمینہ دیا۔ یہاں پر وہ اصل اعداد و شمار ہیں جو اس وقت پیش کئے گئے :
    جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں، ہبل کا ایک سیدھی لکیر کو اس کے اعدادوشمار کے جوڑے میں بیٹھنے کا قیاس تھوڑا سا زیادہ خوش قسمت رہا۔ (واضح طور پر کچھ تعلق ہے، لیکن آیا کیا ایک سیدھا خط سب سے بہتر قیاس ہے یہ بات صرف اعدادوشمار سے واضح نہیں ہے۔ ) پلاٹ سے اخذ کی ہوئی پھیلاؤ کی حاصل کردہ شرح بتاتی ہے کہ ایک کہکشاں جو دس لاکھ پارسیک دور ہے (30 لاکھ نوری برس) - کہکشاؤں کے درمیان علیحدگی کی اوسط - وہ ہم سے 500 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے دور جا رہی ہے۔ بہرحال یہ اندازہ اتنا بھی اچھا نہیں تھا۔ 

    اس کی وجہ دیکھنے کے لئے نسبتاً آسان ہے۔ اگر آج ہر چیز ایک دوسرے سے دور جا رہی ہے، تب شروع میں وہ ایک دوسرے کے قریب تھے۔ اب اگر قوت ثقل ایک تجاذبی قوت ہے، تب اس نے کائنات کے پھیلاؤ کو لامحالہ طور پر سست کر دیا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ کہکشائیں جو ہم سے آج 500 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے دور ہو رہی ہیں وہ پہلے اور تیزی سے حرکت کر رہی ہوں گی۔ 

    اگر ہم ایک لمحے کے لئے فرض کریں کہ کہکشائیں ہمیشہ سے اسی سمتی رفتار سے دور جا رہی ہیں، تو ہم الٹا حساب لگا سکتے ہیں کہ کتنے عرصے پہلے تک وہ ہماری کہکشاں کے مقام پر تھیں۔ کیونکہ وہ کہکشائیں جو دوگنا زیادہ دور ہیں وہ دوگنا تیز رفتار سے حرکت کر رہی ہیں، اگر ہم الٹا حساب لگائیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ وہ ہماری جگہ پر اسی وقت پر منطبق تھیں۔ 

    حقیقت میں تمام قابل مشاہدہ کائنات ایک واحد نقطے، بگ بینگ، پر اس وقت موجود تھی جس کا اندازہ ہم اس طرح سے لگاتے ہیں۔ 

    اس طرح کا تخمینہ کائنات کی عمر کی اوپری حد ہے، کیونکہ اگر کہکشائیں کبھی تیز رفتار حرکت کر رہی تھیں، تو وہ اس تخمینہ کے ذریعہ حاصل کئے گئے وقت سے کہیں پہلے اس جگہ موجود ہوتی جہان وہ آج ہیں۔ 

    ہبل کے تجزیے کی بنیاد پر یہ تخمینہ، بگ بینگ لگ بھگ 1 ارب 50 کروڑ پہلے واقع ہوا تھا۔ بہرحال 1929ء میں بھی ثبوت پہلے ہی سے واضح تھے (سوائے ٹینیسی، اوہائیو اور چند دوسری ریاستوں کے روحانی عالموں کے ) کہ زمین 3 ارب برس سے زیادہ عمر کی ہے۔ 

    اب سائنس دانوں کے لئے یہ شرمندگی کی بات تھی کہ زمین کائنات سے زیادہ پرانی ہے۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ کہ بتاتی تھی کہ تجزیے کے ساتھ کچھ مسئلہ ہے۔ 

    اس پریشانی کی وجہ سادہ حقیقت تھی کہ ہبل کے فاصلے کے تخمینے کو ہماری کہکشاں کے قیقاؤسی تعلق سے حاصل کیا گیا تھا جو منظم طور پر غلط تھا۔ فاصلے کی سیڑھی کی بنیاد قریبی قیقاؤسی کو لے کر دور دراز کے قیقاؤسی کے فاصلے کا تخمینہ لگایا گیا تھا، اور اس کے بعد ان کہکشاؤں کے فاصلے کا تخمینہ لگایا گیا جہان پر مزید دور دراز قیقاؤسیوں کا مشاہدہ کیا گیا، یہ ناقص تھا۔ 

    ان منظم اثرات کو کس طرح سے ٹھیک کیا اس کی تاریخ یہاں پر بیان کرنے کے لئے بہت طویل و پر پیچ ہے، بہرصورت اس سے فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اب ہمارے پاس اس سے کہیں زیادہ بہتر فاصلاتی تخمینہ جات ہے۔ 

    ہبل سے لی گئی تصاویر میں سے ایک میری سب سے پسندیدہ نیچے ہے :

    یہ بہت ہی دور دراز اور کافی عرصے پہلے (کافی عرصے پہلے کی اس لئے کیونکہ کہکشاں کی روشنی نے ہم تک پہنچنے کے لئے کچھ 5 کروڑ سے زائد برس لئے ) کی خوبصورت مرغولہ نما کہکشاں کو دکھاتی ہے ۔ ایک مرغولہ نما کہکشاں جیسا کہ یہ ہے، جو ہماری اپنی کہکشاں سے ملتی ہے، اس میں لگ بھگ 1 کھرب ستارے موجود ہیں۔ غالباً اس کے روشن قلب میں لگ بھگ 10 ارب ستارے ہیں۔ نچلے بائیں کونے کے ستاروں پر غور کریں جو اتنی روشنی سے دمک رہے ہیں کہ جتنی 10 ارب ستاروں کی روشنی ہوتی ہے۔ اس کو پہلی مرتبہ دیکھ کر آپ بھی معقول طور پر یہ فرض کریں گے کہ یہ ہماری اپنی کہکشاں میں کافی قریب ستارہ ہے جو تصویر کے درمیان میں آ گیا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ وہی دور دراز کہکشاں کا ستارہ ہے، جو 5 کروڑ نوری برس سے زیادہ دور ہے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ایک پراسرار کائناتی کہانی: آغاز - حصّہ پنجم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top