Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 9 ستمبر، 2016

    ایک پراسرار کائناتی کہانی: آغاز - حصّہ اوّل



    باب 1


    کسی بھی سفر میں شریک ابتدائی اسرار یہ ہوتا ہے کہ کس طرح سے مسافر پہلی مرتبہ سفر کے آغاز کی جگہ پہنچا؟

    - لوئیس بوگاں، میرے کمرے کے اطراف میں سفر

    یہ ایک سیاہ اور طوفانی رات تھی۔ 

    1916ء کی ابتداء میں البرٹ آئن سٹائن نے ابھی اپنی زندگی کا عظیم کام مکمل ہی کیا تھا، ایک دہائی طویل، زبردست ذہنی جد و جہد کر کے اس نئے ثقل کے نظریئے کو اخذ کیا تھا جس کو اس نے عمومی نظریہ اضافیت کا نام دیا تھا۔ تاہم یہ صرف کشش ثقل کا نیا نظریہ ہی نہیں تھا بلکہ یہ مکان و زمان کا نیا نظریہ بھی تھا۔ یہ وہ پہلا سائنسی نظریہ تھا جس نے محض یہ نہیں بتایا کہ کائنات میں کس طرح اجسام حرکت کرتے ہیں بلکہ یہ بھی بتایا کہ کس طرح سے کائنات بذات خود ارتقا پاتی ہے۔ 

    بہرحال صرف ایک رکاوٹ تھی۔ جب آئن سٹائن نے اپنے نظریئے سے کائنات کی بحیثیت مجموعی وضاحت کرنی چاہی تو یہ بات صاف تھی کہ نظریہ اس کائنات پر لاگو نہیں ہوتا تھا جس میں ہم بظاہر رہتے ہیں۔ 

    اب تقریباً سو برس بعد اس بات کا سمجھنا کافی مشکل ہے کہ کائنات کی تصویر ایک انسانی زندگی کے دوران کس حد تک تبدیل ہو گئی ہے۔ جہاں تک 1917ء میں سائنسی سماج کا تعلق تھا کائنات ساکن اور ابدی تھی اور صرف ہماری کہکشاں ملکی وے پر مشتمل تھی جس کے اطراف میں لامحدود تاریک اور خالی خلاء تھا۔ بہرحال یہی وہ چیز تھی جس کو آپ رات کے آسمان پر اپنی نگاہ اٹھا کر یا چھوٹی دوربین سے دیکھتے ہیں اور اس وقت اس پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ 

    آئن سٹائن کا نظریہ جیسا کہ اس سے پہلے نیوٹن کا کشش ثقل کا نظریئے تھا اسی کی طرح خالص اجسام کے درمیان کشش کی قوت کو بیان کرنا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خلاء میں واقع کمیتیں ہمیشہ کے لئے ساکن نہیں رہ سکتی۔ ان کی آپس کی ثقلی کشش بالآخر ان کو اندر کی طرف منہدم کر دے گی، جو بظاہر ساکن کائنات کے نظریئے کے ساتھ میل نہیں کھاتا۔ 

    یہ حقیقت کہ عمومی اضافیت اس وقت کی کائنات کی تصویر کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی اس کے لئے ایک ایسا پریشان کن امر تھا جس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے، کچھ ایسی وجوہات ہیں جو مجھے آئن سٹائن اور عمومی اضافیت کے بارے میں کہانیوں کے بارے میں یک سو نہیں ہونے دیتیں اور یہ ہمیشہ مجھے پریشان کرتی ہیں۔ عام طور پر فرض کیا جاتا ہے کہ آئن سٹائن کئی برسوں تک بند کمرے میں الگ رہ کر خالص تصورات اور وجوہات کا استعمال کرتے ہوئے کام کرتا تھا اور پھر اس خوبصورت نظریئے کے ساتھ حقیقت سے آزاد ہو کر آیا (شاید جس طرح سے کچھ اسٹرنگ نظریاتی آج کل ہیں !)۔ تاہم اس طرح کی بات سچائی سے کوسوں دور ہے ۔ 

    آئن سٹائن نے ہمیشہ گہرے تجربات و مشاہدات سے رہنمائی حاصل کی ہے۔ اگرچہ اس نے کئی "فکری تجربات" اپنے دماغ میں ادا کئے تھے اور عشروں تک سخت محنت کی اس دوران اس نے نئی ریاضی سیکھی اور آخر میں ایک ایسے نظریئے کو بنانے کے راستے پر کئی غلط نظریوں کے پیچھے بھی گیا جو حقیقت میں ریاضیاتی طور پر خوبصورت تھے۔ اکلوتا سب سے اہم لمحہ جو عمومی اضافیت کی محبت میں قائم ہوا تھا اس کو مشاہدے سے ثابت ہونا تھا۔ اپنے نظریئے کو مکمل کرنے کے آخری مصروف ترین ہفتے کے دوران جب جرمن ریاضی دان ڈیوڈ ہلبرٹ سے مقابلہ بھی چل رہا تھا، اس نے اپنی مساوات کا استعمال ایک غیر واضح فلکی طبیعیات کا حساب لگانے کے لئے کیا یعنی کہ سورج کے گرد عطارد کے "حیض شمسی" (قریب ترین مقام) کو تھوڑا سے درست کیا۔ 

    بہت عرصے پہلے سے فلکیات دانوں نے غور کیا کہ کہ عطارد کا مدار نیوٹن کے قانون سے تھوڑا سا ہٹا ہوا ہے۔ بجائے مکمل بیضوی صورت کے جو خود پر واپس لوٹ آئے، عطارد کا مدار ناقابل تصور چھوٹی مقدار سے آگے بڑھتا ہے : 43 آرک سیکنڈز (لگ بھگ ایک درجہ کا 1/100) فی صدی (جس کا مطلب ہے کہ سیارہ ایک مدار پورا کرنے کے بعد اسی نقطہ پر نہیں آتا، تاہم مدار کی سمت ہر چکر کو پورا کرنے کے بعد تھوڑی سی تبدیل ہوتی ہے اور بالآخر مرغولہ نما نمونہ بناتی ہے )۔ 

    جب آئن سٹائن نے عمومی نظریہ اضافیت کو استعمال کر کے اپنا حساب لگایا تو نتیجہ بالکل ٹھیک آیا۔ جیسا کہ آئن سٹائن کے سوانح نگار ابراہیم پیس نے بیان کیا: "میں سمجھتا ہوں کہ اس دریافت نے شاید آئن سٹائن کی تمام سائنسی زندگی میں سب سے زیادہ جذباتی اثر ڈالا"۔ اس نے دل کے خفقان کو ایسا محسوس ہونے کا دعویٰ کیا جیسے کہ "کسی نے اندر زبردست چٹکی کاٹی ہو"۔ ایک ماہ بعد جب وہ اپنا نظریہ ایک دوست کو بطور "منفرد خوبصورتی" کے بیان کر رہا تھا، اس کی ریاضیاتی خوشی کی صورت حقیقت میں عیاں تھی تاہم دل کے خفقان کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ 

    بہرحال ساکن کائنات کے امکان سے متعلق عمومی اضافیت اور مشاہدات کے درمیان ظاہری اختلاف لمبا عرصہ نہیں چلا۔ (اگرچہ اس نے ایسا کیا تھا کیونکہ آئن سٹائن نے اپنے نظریئے میں ایک تبدیلی کو متعارف کروایا تھا جس کو بعد میں اس نے اپنی عظیم غلطی کہا تھا۔ لیکن اس کے بارے میں مزید بعد میں گفتگو ہوگی۔ ) ہر کوئی (امریکہ میں کچھ اسکول بورڈز کے علاوہ) اب جانتا ہے کہ کائنات ساکن نہیں بلکہ پھیل رہی ہے اور اس پھیلاؤ کی شروعات ناقابل تصور گرم، کثیف بگ بینگ میں لگ بھگ 13 ارب 72 کروڑ برس پہلے ہوا۔ اتنی ہی اہم بات یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری کہکشاں شاید ان 4 کھرب کہکشاؤں میں سے ایک ہے جو قابل مشاہدہ کائنات میں موجود ہے۔ لگتا ہے کہ ہم ابتدائی ارضی نقشہ ساز ہیں جنہوں نے کائنات کے نقشے کو عظیم تر پیمانے پر بنانا شروع کیا ہے۔ زیادہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ حالیہ عشروں میں ہم نے اپنی کائنات کی تصویر میں انقلابی تبدیلیاں دیکھی ہیں۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ایک پراسرار کائناتی کہانی: آغاز - حصّہ اوّل Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top