Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    ہفتہ، 24 ستمبر، 2016

    سرخ منتقلی اور نیلی منتقلی - حصّہ اوّل


    دور درز کہکشاؤں کے سرخ طیف کی کہانی کی اصل شروعات انیسویں صدی کے بوسٹن کے ممتاز صاحب ثروت خاندان کے چشم و چراغ پرسیول لویل کی سیارہ مریخ میں لینے والی دلچسپی سے ہوتی ہے۔ لویل 1855ء میں پیدا ہوا، اور ہارورڈ یونیورسٹی سے ریاضی کی تعلیم حاصل کی جہاں سے اس نے 1876ء میں سند حاصل کی۔ یہ ایک برس پہلے کی بات ہے جب اطالوی فلکیات دان گیووانی شیاپرلی نے مریخ کی نہروں کے اپنے پہلے مفصل مشاہدات پیش کئے۔ کنالی کا ٹھیک ترجمہ نہریں ہیں، مریخ پر اپنی طویل تحقیق کے دوران شیاپرلی نے یہ بات کافی واضح کر دی کہ اس نے اس اصطلاح اور سمندروں اور براعظموں کی اصطلاح کو خالص بیانیہ معنی میں استعمال کیا تاکہ مریخ کے خدوخال کی شناخت کر سکے، اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں تھا کہ اس بات کا دعویٰ کرے کہ یہ خدوخال زمین کے سمندروں، براعظموں اور نہروں (نہروں کو تو چھوڑ ہی دیں ) کے برابر ہیں۔ تاہم تھوڑی سے کنالی کے ترجمے کی غلطی سے اور تھوڑی سے خود سے سوچنے کی وجہ سے شیاپرلی کی رپورٹس نے فرانس، برطانیہ اور شمالی امریکہ میں ایسے دلچسپی کی لہر دوڑا دی جو دہائیوں تک جاری رہی، جس میں عام لوگوں کو تو چھوڑ ہی دیں کئی سنجیدہ فلکیات دان بھی اس بات کے قائل ہو گئے تھے کہ مریخ پر کوئی ذہین مخلوق تھی، اور مریخی قطبی ٹوپیوں سے استوائی علاقے میں پانی لانے کے لئے نہریں کھودنے میں مصروف ہیں۔ شیاپرلی کے مشاہدات کی غلط تشریح کرتے ہوئے مجھے لگتا ہے کہ مشہور ریڈیو پر نشر ہونے والے اورسن ویلس کا ایچ جی ویلز کا جہانوں کی لڑائی کا نسخہ جس کو خود 1890ء میں اس وقت لکھا گیا تھا جب شیاپرلی نے مریخ میں دلچسپی کو اپنے عروج پر پہنچا دیا تھا، اس کا نتیجہ تھا۔ 1938ء میں اس ریڈیو ڈرامے کو ایک حقائق پر مبنی خبروں کی شکل میں پیش کیا جس میں مریخ کے حملہ آوروں کا نیو جرسی پر حملے کو بیان کیا گیا تھا، اس سے ہزاروں سامعین میں افراتفری مچ گئی تھی جنہوں نے اس بات کا احساس ہی نہیں کیا کہ وہ کہانی کو سن رہے ہیں۔ 

    تاہم یہ مستقبل میں اگلی نصف صدی ہی تھی جب شیاپرلی کی دریافت چھانٹی اور غلط ترجمہ ہوئی صورت کی شکل میں ریاست ہائے متحدہ میں 1870ء کی دہائی میں پہنچا اور جہاں اس نے نوجوان پرسیول لویل کی توجہ حاصل کر لی۔ وہ بیج جو بویا گیا تھا اس کے با رآور ہونے میں کافی لمبا وقت تھا۔ لویل نے سند حاصل کرنے کے بعد ایک برس سفر میں گزار دیا، پھر دس برس جاپان اور مشرقی بعید میں اپنے دس برسوں کا سب سے شاندار دور گزارنے سے پہلے چھ برس تک اپنے والد کے کپاس کے کاروبار میں گزارے۔ 1893ء میں اس کے یو ایس واپس جانے کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ فلکیات بطور خاص سیاروں کی تحقیق کو سنجیدگی کے ساتھ کرے۔ وسائل کے ساتھ وہ اس قابل تھا کہ ایریزونا میں فلیگ اسٹاف میں صاف ہوا میں سطح سمندر سے 2,000 میٹر اوپر اور شہروں سے بہت دور اپنی خود کی رصدگاہ کو بنا سکے۔ پندرہ برس تک اس نے مریخ کا مطالعہ 24 انچ کی انعطافی دوربین کی مدد سے کی جس میں اس نے نا صرف نہروں کی خبر دی بلکہ نخلستان اور مشتاق دنیا میں واضح سبزہ روئیدگی کا بھی بتایا۔ اس دریافت میں اس کے تخیل کا کافی دخل تھا، تاہم دوسرے فلکیات دانوں نے بھی اسی طرح کی غلطیاں کیں - یہاں تک کہ زمین کی سب سے بہترین دوربین سے بھی مریخ کی انتہائی بری تصویر نظر آتی تھی کیونکہ تفصیل زمین کے کرۂ فضائی کی وجہ سے دھندلا جاتی ہیں۔ ایک بڑی دوربین صرف دھندلاہٹ کو بڑھا دیتی۔ لویل مریخ پر زندگی کے بارے میں غلط تھا تاہم اس نے یقینی طور پر امریکی نسل میں فلکیات سے متعلق دلچسپی کو جذباتیت کی حد تک بڑھاوا دیا۔ اس نے یہ بھی پیش گوئی کہ کہ نیپچون کے مدار کے باہر ایک نواں سیارہ بھی لازمی طور پر موجود ہو گا جو اپنی موجودگی دوسرے سیاروں کے مدار میں بیکلی پھیلا کر ظاہر کرے گا۔ اس کے مرنے کے چودہ برس بعد 1930ء میں پلوٹو بعینہ اسی جگہ دریافت ہوا جہاں اس نے اندازہ لگایا تھا۔ یہ ایک عارضی چیز تھی؛ کیونکہ آج فلکیات دان سمجھتے ہیں کہ پلوٹو اس قدر چھوٹا ہے کہ وہ بیرونی سیاروں کے مدار پر اپنا اثر ڈال سکتا، اور ہو سکتا ہے کہ ایک دسواں سیارہ بھی موجود ہو گا جو اس قسم کی ڈگمگاہٹ کا ذمہ دار ہو گا۔ اس کے باوجود لویل کے کئی اور حقیقی کارنامے تھے سائنسی سماج نے اس کے شوقیہ کام میں فلکیات کے سنجیدہ کام کے طور پر کافی سراہا ۔ 1902ء میں تو لویل ایم آئی ٹی میں وقتی فلکیات کا پروفیسر تعینات ہوا، اس مقام پر اس نے اپنی باقی پوری زندگی گزار دی جہاں اس نے انسٹیٹیوٹ میں کئی لیکچروں کے سلسلے دیئے۔ تاہم شاید لویل کی سب سے عظیم فلکیات پر احسن ایک نوجوان مشاہد ویسٹو سلائیفر کو نوکری پر رکھنا اور اس کو مرغولہ نما سحابیوں کے طیف لینے اور ان کی روشنی میں ہونے والے ڈوپلر منتقلی کو دیکھنے کے لئے کام پر لگانا تھا۔ لویل کی تحریک اس کا سیاروں میں دلچسپی تھی - وہ اپنے دور کے کئی فلکیات دانوں کی طرح سمجھتا تھا کہ سحابیہ شاید سیاروی نظام ہیں جو بننے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ تاہم سروے کی تحریک سے نہیں بلکہ نتائج سے فرق پڑتا ہے۔ 

    سلائیفر کئی طرح سے لویل کا برعکس تھا۔ جہاں لویل جلد باز بروں شغف نتائج پر چھلانگ لگا کر پہنچنے والا تھا وہاں سلائیفر بہت ہی خاموش اور ضابطے سے کام کرنے والا، جفا کش اور اپنی دریافت کا کبھی بھی اس وقت اعلان نہ کرنے والا تھا تاوقتیکہ اس کو یقین نہیں ہو جاتا۔ ان دونوں کی خصائص میں فرق اس قدر زیادہ عیاں تھا کہ ایسا لگتا تھا کہ لویل اپنی خامیوں اور خوبیوں کو جانتا تھا اور اس سے جان بوجھ کر سلائیفر کو اپنی ٹیم میں لویل رصدگاہ میں رکھا کہ لویل اپنے اضطرار کو مناسب طور سے توازن میں رکھ سکے۔ 

    سلائیفر 1738ء میں ہینوور میں پیدا ہوا۔ اس نے انڈیانا یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، اور 1901ء میں سند لی اور فوراً ہی بذات خود لویل نے اس کو لویل رصدگاہ میں کام کرنے کی دعوت دی۔ وہ اپنی پیشہ وارانہ زندگی کے باقی عرصے یہاں رہا، اس دوران اس نے 1903ء میں ایم اے اور 1909ء میں پی ایچ ڈی کی دونوں سندیں انڈیانا یونیورسٹی سے حاصل کیں اور 1916ء میں لویل کی موت کے بعد قائم مقام ڈائریکٹر اور 1926ء میں لویل رصدگاہ کا ڈائریکٹر بن گیا۔ یہ سلائیفر ہی تھا جس نے وہ تلاش شروع کی جس نے 1930ء میں پلوٹو کی دریافت کی راہ دکھائی، اور اگرچہ وہ 1952ء میں سبکدوش ہو گیا تھا تاہم وہ 1969ء تک زندہ رہا، اس دور سے جب فلکیات دان سمجھتے تھے کہ ملکی وے ہی پوری کائنات ریڈیائی کہکشاؤں، کوزار اور پس منظر کی خرد امواج کی دریافت تک جس کو عظیم دھماکے کی بذات خود گونج سمجھا جاتا تھا۔ وہ نظریہ جو پس منظر کی اشعاع کے وجود کے بارے میں پیش گوئی کرتا ہے وہ اس بڑی پیمائش کی تحقیق کی بدولت لگایا گیا جس کی شروعات سلائیفر نے 1912ء میں اینڈرومیڈا سحابیہ سے آنے والی روشنی میں ڈوپلر منتقلی کی اپنی پیمائش سے کی تھی، جس کو ہم اب جانتے ہیں کہ وہ ملکی وے کی سب سے قریبی بڑی کہکشاں ہے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: سرخ منتقلی اور نیلی منتقلی - حصّہ اوّل Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top