Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    اتوار، 11 ستمبر، 2016

    ایک پراسرار کائناتی کہانی: آغاز - سوم



    اس سے قبل 1925ء میں ہبل نے اہم دریافت نئی ماؤنٹ ولسن کی 100 انچ کی ہو کر دوربین کے ساتھ کی تھی، جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی دوربین تھی۔ (موازنے کے لئے، اب ہم اس سے دس گنا زیادہ بڑی قطر کی اور سو گنا بڑے حجم کی دوربین بنا رہے ہیں ! ) اس وقت تک دستیاب دوربینوں کے ساتھ ماہرین فلکیات اجسام کی دھندلی تصاویر کو الگ کر چکے تھے کہ وہ سادہ طور پر ہماری کہکشاں کے ستارے نہیں ہیں۔ وہ ان کو سحابئے کہتے تھے، جو بنیادی طور پر لاطینی زبان میں "دھندلی چیزوں " (اصل میں "بادل") کو کہا جاتا ہے۔ وہ اس پر بھی بحث کرتے تھے کہ یہ اجسام ہماری کہکشاں کے اندر یا باہر ہیں۔ 

    کیونکہ اس وقت تک کائنات کا رائج نقطہ نظر یہ تھا کہ ہماری کہکشاں ہی سب کچھ ہے، زیادہ تر ماہرین فلکیات "ہماری کہکشاں کے اندر" کے پڑاؤ میں ہی شامل تھے، جن کی رہنمائی ہارورڈ کے مشہور ماہر فلکیات ہارلو شپیلی کر رہے تھے۔ شیپلی نے پانچویں جماعت سے اسکول جانا چھوڑ دیا تھا اور خود سے ہی پڑھائی کی تھی اور بالآخر پرنسٹن گئے۔ اس نے فلکیات پڑھنے کا فیصلہ پہلا مضمون چن کر کیا جو اسے نصاب تعلیم میں ملا۔ بنیادی کام میں اس نے مظاہرہ کیا کہ ملکی وے پہلے سمجھے جانے کے مقابلے میں کافی بڑی ہے اور سورج اس کے مرکز میں نہیں ہے بلکہ ایک غیر دلچسپ کونے پر اس کے مضافات میں ہے۔ 

    وہ فلکیات میں ایک ناقابل شکست قوت تھی اور لہٰذا اس کے نظریات سحابیہ کی ماہیت پر قابل غور تھے۔ 1925ء میں نئے سال کے دن کے موقع پر، ہبل نے نام نہاد سحابیہ پر اپنی دو برس کی تحقیقی نتائج شایع کئے جس میں وہ ان سحابیوں بشمول اب اینڈرومیڈا کہلانے والے سحابیہ میں کئی طرح کے متغیر ستاروں کی شناخت کرنے کے قابل ہو گیا تھا جن کو قیقاؤسی متغیر ستارے کہتے ہیں۔ 

    سب سے پہلا 1784ء میں مشاہدہ کیا گیا، قیقاؤسی متغیر ستارے وہ ستارے ہیں جن کی روشنی باقاعدہ مدت میں بدلتی رہتی ہے۔ 1908ء میں ایک گمنام اور اس وقت بے قدر مستقبل کی ماہر فلکیات دان ہینریٹا سوان لیوٹ ہارورڈ کالج آبزرویٹری میں بطور "کمپیوٹر" کے لگی۔ ("کمپیوٹر" وہ عورتیں تھیں جو رصدگاہ کی عکسی تختیوں میں درج ہونے والے روشن ستاروں کی فہرست کو بناتی تھیں ؛ اس وقت تک عورتوں کو رصدگاہ کی دوربین کے استعمال کی اجازت نہیں تھی۔ ) خود مختار کلیسائی جماعت کے وزیر اور زائر کی نسل میں سے، لیوٹ نے ایک حیرت انگیز دریافت کی، جس پر اس نے مزید 1912ء میں روشنی ڈالی: اس نے دیکھا کہ قیقاؤسی سیاروں کی روشنی میں اور ان کی روشنی کے تغیر کی مدت میں ایک باقاعدہ تعلق موجود تھا۔ 

    لہٰذا اگر کوئی کسی ایک معلوم مدت کے واحد قیقاؤسی کے فاصلے کا تعین کر سکے (جس کا تعین بعد میں 1913ء میں کر لیا گیا تھا)، تب اسی مدت کے دوسرے قیقاؤسیوں کی روشنی کی پیمائش اس بات کی اجازت دے گی کہ ان دوسرے ستاروں کے فاصلے کا تعین کیا جا سکے ! کیونکہ مشاہدہ کیا گیا ستاروں کی روشنی معکوس طور پر ستارے کے فاصلے کے مربع سے کم ہوتی ہے (روشنی کرے پر یکساں پھیلتی ہے جس کا حجم فاصلے کے مربع کے حساب سے بڑھتا ہے، اور اس طرح کیونکہ روشنی بڑے کرے پر پھیلتی ہے، روشنی کی شدت کسی بھی مشاہدہ کردہ نقطے پر کم کرے کے حجم کے حساب سے الٹ طور پر ہوتی ہے )، دور دراز کے ستاروں کا فاصلے کا تعین کرنا فلکیات میں ہمیشہ سے ایک پریشان کن کام رہا ہے۔ 

    لیوٹ کی دریافت نے میدان میں انقلاب برپا کر دیا۔ (ہبل خود، جسے نوبل انعام کے لئے نظر انداز کر دیا گیا تھا، اکثر کہتا تھا کہ لیوٹ کا کام انعام کا حقدار تھا، اگرچہ وہ کافی خود کفیل تھا اور غالباً وہ صرف اس لئے یہ تجویز دیتا تھا کیونکہ وہ بعد میں اپنے کام کی وجہ سے خود بھی قدرتی طور پر انعام کا اشتراک کرنے والا تھا۔) اصل میں کاغذی کارروائی رائل سویڈش اکیڈمی میں شروع بھی ہو گئی تھی تاکہ لیوٹ کو 1924ء میں انعام کے لئے نامزد کیا جائے تاہم اس وقت معلوم ہوا کہ وہ تین برس پہلے سرطان کی وجہ سے انتقال کر چکی ہے۔ اپنی شخصیت کی طاقت کے بل بوتے پر خود سے ترقی کی استعداد اور بطور مشاہد کی مہارت کی بدولت ہبل کا نام گھر گھر جانے لگا جبکہ لیوٹ کے لئے صد افسوس کہ صرف میدان کے جوشیلے ہی لیوٹ کو جانتے ہیں۔ 

    ہبل نے اپنے قیقاؤسی کے پیمائش اور لیوٹ کی مدت-روشنی کے تعلق کو استعمال کر کے قطعی طور پر ثابت کیا کہ اینڈرومیڈا اور کئی دوسرے سحابیہ میں قیقاؤسی اتنے دور تھے کہ وہ ملکی وے کے اندر نہیں ہو سکتے تھے۔ اینڈرومیڈا ایک دوسری جزیرہ نما کائنات کے طور پر دریافت ہوئی، ایک اور مرغولہ نما کہکشاں جو ہماری کہکشاں کے جیسی ہی تھی، اور مزید ایک کھرب کہکشاؤں میں سے ایک تھی، اب ہم جانتے ہیں کہ وہ ہماری قابل مشاہدہ کائنات میں موجود ہیں۔ ہبل کے نتائج کافی حد تک غیر مبہم تھے کہ فلکیاتی دنیا - بشمول شیپلی جو حادثاتی طور پر اس وقت تک ہارورڈ کالج آبزروویٹی کا منتظم بن چکا تھا، جہان لیوٹ نے اپنے اختراعی کام کو مکمل کیا تھا - تیزی سے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا کہ ملکی وے ہی صرف ہمارے آس پاس نہیں ہے۔ یکایک معلوم کائنات کا حجم ایک ہی قدم میں پھیل کر صدیوں میں ہونے والے اضافہ سے زیادہ ہو گیا۔ جس طرح سے باقی چیزیں تبدیل ہوئی تھیں اسی طرح سے اس کا کردار بھی تبدیل ہو گیا تھا۔ 

    اس ڈرامائی دریافت کے بعد، ہبل اس اعزاز پر اکتفا کر سکتا تھا، تاہم وہ اس کے بعد بڑی مچھلی کے پیچھے لگ گیا اور اس صورتحال میں بڑی کہکشاؤں کے۔ اس وقت تک کی دور کی کہکشاں میں موجود مزید مدھم قیقاؤسیوں کی پیمائش کر کے وہ اس قابل ہوا کہ کائنات کا اور بڑے پیمانے پر نقشہ بنا سکے۔ 

    بہرحال جب اس نے ایسا کیا تو اس نے کچھ ایسا دریافت کیا جو اس سے بھی شاندار تھا: کائنات پھیل رہی تھی!
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ایک پراسرار کائناتی کہانی: آغاز - سوم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top