Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 9 ستمبر، 2016

    کہکشاں کا پیمانہ - حصّہ اوّل



    دو آدمی جو مل کر بڑی حد تک کائنات کے پیمانے کی تفہیم کے لئے اگلے قدم کے ذمہ دار تھے وہ بالکل ہی مختلف جگہوں سے آئے تھے۔ جارج ایلری ہیل جو بیسویں صدی کے دوربین بنانے والے - بلکہ اگر ہم گلیلیو، ہرشل یا روسے کے وقت سے فنیات میں ہونے والی پیش رفت کو بھی مد نظر رکھ لیں تو شاید اب تک کے عظیم تر کاریگر - اور ایک صاحب حیثیت انسان تھے، ایک بالا بر بنانے والے کے فرزند۔ وہ 1868ء میں شکاگو میں پیدا ہوئے اور ان کی تعلیم روایتی طریقوں سے ہوتے ہوئے ایم آئی ٹی تک گئی اور پھر وہ 1892ء میں شکاگو یونیورسٹی میں فلکیات کے پروفیسر تعینات ہوئے۔ ہیل کی فلکیات سے رغبت بچپن میں اس وقت بڑھی جب انہوں نے جانا کہ سورج سے آنے والی روشنی کو طیف بینی کے ذریعہ تجزیہ کرکے اپنے قریبی ستارے کے اجزائے ترکیبی کو معلوم کیا جا سکتا ہے۔ بیس برس کی عمر میں وہ نئے قسم کے طیف بینی کے آلات بنا رہے تھے جن سے سورج کی روشنی کا مزید بہتر تجزیہ کیا جا سکتا تھا؛ ڈارون کی کتاب 'انواع کا ماخذ' کے شایع ہونے کے دس برس بعد پیدا ہوا اس فلکیات دان کا یہ زندگی کا خواب تھا کہ سائنس ایک دن ستاروں کے ماخذ اور ارتقاء اور حیات کے ماخذ اور ارتقاء کو ایک ہی عظیم ہلے میں بیان کرنے کے شاید قابل ہو جائے۔ آج یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا خواب پورا ہو گیا - اور کتاب لکھنے کی وجہ یہ ہی ہے۔ اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ ہیل کے ولولے اور دوربین بنانے والی کاریگری، سرمایہ فراہم کرنے والے اور رصدگاہ کے نگران کی وجہ سے ہم اس کے خواب کو پورا کرنے کے انتہائی قریب ہیں۔

    ہیل کا مستقبل جو نئی نسل کی دوربینوں اور رصدگاہوں کو بنانے کے پیچھے تھا اس کی شروعات اتفاق سے اس وقت ہوئی جب اس نے سنا کہ سدرن کیلی فورنیا یونیورسٹی نے 40 انچ کی انعطافی دوربین کے عدسے کو بنانے کی فرمائش جاری کی ہے تاہم وہ اس کی ادائیگی کے قابل نہیں تھی۔ دوربینوں کی قدر ان کے اہم بڑھا کر دکھانے والے عدسے یا آئینوں کے قطر کی مدد سے جانی جاتی ہے، اور اس وقت 1890 کی دہائی میں سب سے بڑی انعطافی دوربین (یعنی کہ وہ جس میں اہم عدسے کو آئینے کے بجائے استعمال کیا جا رہا تھا) وہ کیلی فورنیا میں واقع سان جوز کے قریب ماؤنٹ ہملٹن کی لک رصدگاہ کا 36 انچ کا تھا۔ یہ فلکیاتی عدسوں کو صحت کے ساتھ بنانے کی آخری عملی حد کے قریب تھا کیونکہ اس سے بڑے اپنے خود کے وزن سے مڑ کر خراب ہو جاتے تھے۔ آج کی سب سے بڑی دوربینیں تمام کی تمام انعکاسی ہیں جو عدسوں کو نہیں بلکہ بڑے مکافی نما آئینوں کا استعمال کرکے ارتکاز کے ذریعہ ستاروں کی روشنی کو جمع کرتی ہیں۔ آئینے کے استعمال کا فائدہ عدسوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے کیونکہ اس سے کوئی روشنی نہیں گزرتی لہٰذا آئینے کے پیچھے اس کو پکڑنے کے لئے سہارا بھی دیا جا سکتا ہے۔1890ء کی دہائی کے آغاز میں یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ دوربینوں کو بنانے کے لئے اگلے قدم میں بڑے آئینوں کی ضرورت ہوگی؛ تاہم ہیل کی دلچسپی ان بنے بنائے عدسوں کو حاصل کرنے کے امکان سے تھی جو پیرس کی ورکشاپ میں رکھے ہوئے تھے جہاں انھیں بنایا جاتا تھا اور بعد میں ان کو لک سے بھی زیادہ بڑی دوربین بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ ایک صاحب ثروت آدمی کے بیٹے کی حیثیت سے اس کے پاس منصوبے میں لگانے کے لئے درکار سرمائے کو حاصل کرنے کے لئے درست رابطے موجود تھے، اور اس نے شکاگو کی صاحب حیثیت خاندانوں سے بات چیت بھی کر لی تھی، بالآخر درکار سرمائے کا وعدہ چارلس یرکس سے حاصل کرلیا جو ایک ٹرالی کار والا بڑا آدمی تھا۔ جو رقم درکار تھی وہ 349,000 ڈالر تھی جس کو یرکس نے کنجوسی کے ساتھ ٹکڑوں میں اگلے چند برسوں میں اس وقت فراہم کی جب تک ہیل نے اپنی مہم جاری رکھی۔ تاہم پیسا آگیا اور دوربین بن گئی اور شکاگو یونیورسٹی میں یرکس رصدگاہ کا اہم مرکزی حصّہ بنی جہاں 1897ء میں ہیل اس کا ]پہلا سربراہ انتیس برس کی عمر میں بنا۔ 40 انچ (لگ بھگ ایک میٹر) یرکس دوربین اب بھی دنیا کی سب سے بڑی انعکاسی دوربین ہے۔

    ہیل کے پاس اب اگلا بڑا قدم اٹھانے کا وقت تھا۔ اس کی ولیم بے، وسکونسن میں واقع رصدگاہ میں بڑا انعکاسی بھی کافی اچھا تھا تاہم یہ کچھ بڑا اور بہتر اور زیادہ موزوں جگہ پر چاہتا تھا۔ زمین سے ستاروں کو دیکھنے کی سب سے اچھی جگہ اونچے پہاڑ پر ہوتی ہے جو ہمارے سیارے کے نچلی کرۂ فضائی میں دھول اور بادلوں سے صاف اور شہروں کی روشنیوں سے دور ہو۔ جلد ہی ہیل کیلی فورنیا میں واقع ماؤنٹ ولسن میں ایک چھوڑی ہوئی جھونپڑی میں خیمہ زن اس وقت ہوا جب وہ ایک چھوٹی دوربین سے آسمان کے منظر کی جانچ کر رہا تھا۔ دوبارہ واپس آکر اس نے واشنگٹن کے کارنیگی انسٹیٹیوشن سے ماؤنٹ ولسن میں ایک نئی رصدگاہ بنانے کے لئے مدد کو جمع کرنا شروع کیا جو ابتدائی طور پر 60 انچ (1.5 میٹر) پھیلی ہوئی انعکاسی دوربین کے ساتھ اور ہیل بطور سربراہ کے کام کرتی۔ آئینہ بذات خود ہیل کے باپ کی طرف سے ایک تحفہ تھا جو 1908ء میں استعمال ہونا شروع ہوا اور یہی وہ اہم آلہ تھا جو اس آدمی نے استعمال کیا جس نے ہماری ملکی وے کہکشاں کا سچا پیمانہ قائم کیا۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: کہکشاں کا پیمانہ - حصّہ اوّل Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top