Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 14 ستمبر، 2016

    ہبل کی کائنات - حصّہ اوّل



    ہبل یقین رکھتا تھا کہ مرغولہ نما سحابئے اصل میں ملکی وے سے بہت دور کہکشائیں ہیں، تاہم وہ جلدی میں اس نقطے کو ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہتا تھا۔ سب سے پہلے اس نے دوسرے سحابیوں کے مسئلے سے نمٹا، وہ جو مرغولہ نما ساخت ظاہر نہیں کرتے تھے اور جو یقینی طور پر ملکی وے نظام کا ہی حصّہ تھے۔ مختلف دوربینوں کا استعمال کرتے ہوئے، جس میں اکثر 60 انچ والی اور کبھی کبھی اس 100 انچ والی دوربین پر جس پر پہلی مرتبہ ہبل کو 1922ء میں کام کرنے کی اجازت ملی، ہبل نے تحقیق کا بڑا حصّہ مکمل کرلیا تھا جو بتاتا تھا کہ یہ گیسی سحابئے (ان میں سے اکثر میں دھول ہوتی تھی) ستاروں کی طرح اپنی روشنی کی وجہ سے نہیں بلکہ یا تو ستاروں سے کی روشنی کو منعکس کرکے سحابئے کے اندر یا اس سے قریب ہونے کی وجہ سے کرتے ہیں یا پھر قریبی ستاروں سے جذب ہونے والی توانائی اتنی ہوتی ہے گیس کو گرم کرکے دمکا دے۔ گیسی سحابیوں اور ہماری کہکشاں کے ستاروں کے درمیان تعلق اس بات کی تصدیق تھی کہ سحابئے اصل میں ہماری ملکی وے نظام کا حصّہ ہیں۔ تاہم مرغولہ نما سحابیوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس کی شاگردی نے کام دکھایا، ہبل نے اب اپنی توجہ مسئلے کے قلب کی طرف موڑ لی۔

    1920ء کے عشرے کی ابتداء میں بھی اور 100 انچ کی دوربین کی مدد سے بھی ابھی تک کسی بھی مرغولہ نما سحابیہ کی ایسی تصویر لینا ممکن نہیں ہوتا تھا جو واضح طور پر ان کو میجیلانی بادلوں کی طرح الگ ستاروں پر مشتمل ہوکر دکھائے۔ وہ سب سے بہتر تصویر جو ہبل لے سکا تھا اس کو عدسے کی مدد سے بڑا کرنے کے بعد ایسا لگتا تھا کہ جیسا کہ اگر روشنی درست ہوتی اور ببل کا مزاج رجائیت پسند ہوتا تو اس سے یہ اشارہ ملتا کہ روشنی شاید دانے دار ساخت میں ٹوٹی ہوئی ہے جو مذکورہ سحابئے کے ستاروں کے مجموعہ کو ظاہر کرے گی۔ تاہم یہ اس قسم کا ثبوت نہیں تھا کہ جس پر ہبل جیسا محتاط آدمی اپنی شہرت داؤ پر لگا دیتا۔ اگر مرغولہ نما ساخت کا تعین مختلف ستاروں میں نہیں ہو سکتا تھا تب بھی ہبل اس ستارے کے بادل کی تفتیش کرنے میں جتا رہتا جس کا تعین ہو سکتا تھا چاہئے وہ کوئی دھندلا آسمان میں بے قاعدہ پیوند میجیلانی بادلوں سے کم اہمیت کا ہی کیوں نہ ہوتا۔ اس نے ستاروں کے گروہ جو NGC (نئی کہکشانی فہرست) 6822 کہلاتی تھی، کو لیا اور دو برس اس کی جتنی بہترین تصویریں وہ لے سکتا تھا تصویروں کے سلسلے کو حاصل کرنے میں لگا دیئے۔ ایک رات یہ ممکن ہو سکتا تھا کہ وہ کوئی کارآمد بادل کی تصویر لے سکے؛ دوسرے موقعوں پر ایک نفیس تصویر لینے میں دو مشاہدہ کرتے ہوئے دو مختلف راتیں لگ جاتیں، گھنٹوں صبر سے مشاہدہ کرکے ہبل 100 انچ کی دوربین کو ایک جگہ ٹکا دیتا تھا۔ بلاشبہ دوربین سے دوسرے کام کرنے کی بھی طلب آتی تھی۔ لہٰذا اس وجہ سے ہبل کو 1923ء اور 1924ء کا لگ بھگ پورا عرصہ NGC 6822 کی اچھی پچاس تختیاں لینے میں لگ گیا۔ نتیجہ اس بادل میں دو درجن سے زیادہ قیقاؤسیوں کی شناخت کی صورت میں نکلا اور شیپلی کی تیکنیک کا استعمال کرتے ہوئے ہبل اس قابل ہوا کہ اس چھوٹی بے قاعدہ کہکشاں کا فاصلہ ناپ سکے جو چھوٹے میجیلانی بادل کی نسبت سات گنا زیادہ تھا۔ یہ 1924ء میں ہوا تھا۔

    NGC 6822 کے مشاہدہ کرنے کے دوران ایک اور ماورائے کہکشاں قیقاؤسی کی شناخت اینڈرومیڈا سحابئے میں ہوئی جو M31 (میسی کی فہرست میں 31 ویں نمبر پر) کے نام سے بھی جانی جاتی تھی۔ یہ دریافت 1923ء کے موسم خزاں میں اینڈرومیڈا سحابئے کے اندر نوا کو تلاش کرنے کے سروے کے دوران ہوئی تھی، نوا جس کو کرٹس کے سحابئے کی ماہیت سے متعلق خیال کی جانچ کے لئے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ ہبل اپنی کتاب سحابیوں کے دور میں (صفحہ 93) پر یاد کرتا ہے 'پروگرام میں سب سے پہلی اچھی تختی کو 100 انچ کی انعکاس کنندہ سے بنایا گیا تھا جس سے دو عام سے نوا اور ایک دھندلے جسم کی دریافت ہوئی جس کو پہلے ایک اور نوا فرض کرلیا گیا تھا۔ ماؤنٹ ولسن پر نوا کی تلاش میں لمبے سلسلے کی تختیوں کا حوالہ لے کر جو پچھلے مشاہدین نے ترتیب دی تھیں یہ بات قائم ہو گئی تھی کہ دھندلے اجسام متغیر ستارے ہیں اور وہ مسلسل اپنی تغیر کی ماہیت کو دکھا رہے ہیں۔ یہ ایک عام قیقاؤسی تھا جس کا دورانیہ ایک ماہ کا تھا۔۔۔ درکار فاصلہ 90,000 نوری برس کا تھا۔' مختلف وجوہات کی بنا پر اس فاصلے کا تخمینہ اب اوپر کی جانب ترمیم شدہ ہو کر 20 لاکھ نوری برس (670 کلو فلکی فرسخ) ہو گیا ہے۔ تاہم یہ اس دریافت کے مقابلے میں ایک چھوٹی سے بات تھی. بغیر کسی نئے مفروضے کے (کرٹس کے برعکس جس نے صرف یہ قیاس کیا تھا کہ اینڈرومیڈا میں واقع نوا خلقی طور پر ملکی وے کے نوا جیسے ہی تھے) مگر اسی پیمائشی چھڑی کا استعمال کرکے جس سے شیپلی نے ملکی وے کا نقشہ بنایا تھا ہبل اب خارجی کہکشاؤں کا فاصلہ ناپ سکتا تھا۔

    فی الوقت شاید یہی نقطہ سب سے اہم ہے۔ اس پیش رفت میں فاصلہ چھلانگ لگا کر 20 لاکھ برس تک پہنچ گیا جو کائنات میں ہمارا اپنی ملکی وے کہکشاں سے سب سے قریب ترین کہکشاں میں رکھا جانے والا پہلا قدم تھا۔ جس کہکشاں میں ہم رہتے ہیں وہ یکایک پوری کی پوری فلکیاتی تصور میں سکڑ کر خلاء کے وسیع تاریک سمندر میں صرف ایک تیرتا ہوا قطرہ بن گئی تھی۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ہبل کی کائنات - حصّہ اوّل Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top