Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 23 ستمبر، 2016

    پھیلتی کائنات

    باب چہارم


    سائنس ہمیشہ ایک منظم انداز میں ترقی نہیں کرتی۔ ہو سکتا ہے کہ آج ہونے والی دریافت کو برسوں، یا دہائیوں تک اپنی اہمیت جتانے اور اپنی جگہ بنانے میں لگ سکتے ہیں، جبکہ کل کسی ہونے والے مشاہدے کی واضح اور فوری اہمیت قائم ہو سکتی ہے۔ مختلف تحقیق کے میدانوں میں پیش رفت کئی نسلوں تک ایک دوسرے سے الگ رہ کر ہو سکتی ہے، تاوقتیکہ کوئی رابطہ قائم کرنے والا عوامل بتائے کہ یہ ایک ہی چیز کے دو رخ ہیں یا پوری کی پوری ایک ہی چیز ہے۔ وہ دو عظیم خطوط جن پر ہبل تحقیق کر رہا تھا اور جو ایک دوسرے سے کافی قریب تھے ان میں ایسا بالکل نہیں تھا۔ یہ اس لمحے سے ہی واضح ہو گیا تھا جب کہکشاؤں کی بڑی سمتی رفتار دریافت ہوئی تھی کہ یہ سمتی رفتار کائنات کی ماہیت کے بارے میں کچھ اہم بات بتا رہی ہے، بعینہ ایسے ہی جیسے ہبل کے دھندلے اور دور دراز کہکشاؤں کی تعداد اور تقسیم کے سروے بتا رہے تھے۔ تاہم دونوں محاذوں پر پیش رفت کبھی ہوتی کبھی رکتی، اور تحقیق کو کسی تاریخی جگہ پہنچنے کے لئے ابھی صرف ایک ہے راہ پر گامزن رہنا تھا، اور پھر واپس پلٹ کر دوسری اہم بات کو دیکھنا تھا۔ 

    وہ کام جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کائنات کہکشانی جھرمٹوں سے ہر جگہ یکساں طور پر بھری ہوئی ہے، جہاں تک دوربین دیکھ سکتی ہے وہاں تک ہر سمت میں ایک ہی جیسی ہے، 1930ء کے عشرے اور اس کے بعد بھی جاری رہا اور حقیقت تو یہ ہے کہ آج تک جاری ہے۔ ہبل کی ایک اصلی خواہش جو اس کے رفقائے کار کئی مرتبہ بتا چکے ہیں وہ رات کے آسمان کے حصّے کی تصویر 100 انچ کی دوربین کا استعمال کر کے لینی تھا جس میں حتمی تصویر میں اتنی ہی مرئی کہکشائیں موجود ہوتی جتنے کہ پیش منظر میں ہماری ملکی وے کے ستارے ہوتے۔ اس خواہش کو 8 مارچ 1934ء کو پورا کر لیا گیا جس میں اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ کائنات میں کہکشاؤں کی اسی طرح بہتات ہے کہ جیسے ملکی وے میں ستاروں کی۔ یہ تاریخ ہمیں ایک موزوں سنگ میل فراہم کرتی ہے، وہ لمحہ جس کائنات کی وسعت اور کہکشاؤں کی ماہیت بطور کہ بنیادی مرئی بنیادی اینٹوں کے بغیر کسی شک و شبے کے قائم ہو گئی۔ اس طرح کی تختی پر عکس شدہ کہکشاؤں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے ہبل نے اندازہ لگایا کہ 10 کروڑ کہکشائیں اہم تصویر میں ہیں ؛ 200 انچ اور دوسری بڑی دوربینیں جو اب دستیاب ہیں ان کی مدد سے فلکیات دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ اب سو ارب کہکشاؤں کی تصویر لی جا سکتی ہے بشرطیکہ ہمارے پاس وقت اور پورے آسمان کا تفصیل کے ساتھ سروے کرنے کا میلان ہو۔ حقیقت میں یہ لگ بھگ وہی تعداد ہے جتنی تعداد ملکی وے میں ستاروں کی ہے۔ تاہم اس سے پانچ برس پہلے اور لگ بھگ آدھی دہائی سے قبل جب اس نے یہ اہم تصویر 1934ء میں لی تھی، ہبل نے اس دریافت کا بتایا کہ تمام کہکشائیں سوائے ہمارے پڑوسی کہکشاؤں کے کائنات کے پھیلنے کے ساتھ نا صرف ہم سے دور جا رہی ہیں بلکہ یہ کام وہ ایک طبیعیات کے سادے قانون کی رو سے کر رہی ہیں۔ اور یہ صرف سترہ برس قبل کی بات تھی کہ جب 1912ء میں میں پہلی مرتبہ ان کی سمتی رفتار کی پیمائش کی گئی جو اس وقت 'سحابیہ' کہلاتے تھے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: پھیلتی کائنات Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top