Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    ہفتہ، 10 ستمبر، 2016

    ایک پراسرار کائناتی کہانی: آغاز - حصّہ دوم



    اس دریافت نے کہ کائنات ساکن نہیں ہے بلکہ پھیل رہی ہے، فلسفیانہ اور مذہبی اہمیت پر کافی عمیق اثر ڈالا ہے کیونکہ یہ بتاتی ہے کہ ہماری کائنات کی ابتداء تھی۔ ابتداء سے تخلیق سمجھ میں آتی ہے اور تخلیق جذبات کو ابھارتی ہے۔ 1929ء میں بگ بینگ کے نظریئے پر ہماری پھیلتی ہوئی کائنات کی دریافت نے کئی عشرے خود مختار طور پر مشاہداتی ثبوت حاصل کرنے میں لگا دیئے، پاپ پائیس XII نے 1915ء میں اس کی خبر بطور پرانے عہد نامے کے ثبوت کے طور پر دے دی تھی۔ جیسا کہ انہوں نے لکھا:

    ایسا لگتا ہے کہ موجود دور کی سائنس صدیوں کو ایک ہی وار میں قدیمی کن فیکون [روشن ہو جا]، کے واقعے کی شاہد ہونے میں کامیاب ہو گئی جب مادّے کے ساتھ عدم سے روشنی اور اشعاع کا پھٹاو ہوا تھا اور عناصر ٹوٹ کر بلوئے گئے اور انہوں نے کروڑوں کہکشائیں تشکیل دیں۔ اس ٹھوس پن کے ساتھ جو جسمانی ثبوت کی خاصیت لگتی ہے، [سائنس] نے کائنات کے ہنگامے کی تصدیق لہذا، تخلیق ہوئی تھی۔ ہم کہتے ہیں : "لہذا، ایک خالق موجود ہے۔ لہذا، خدا موجود ہے ! "

    اصل کہانی تھوڑی سی زیادہ دلچسپ ہے۔ در حقیقت وہ پہلا شخص جس نے بگ بینگ کی تجویز پیش کی وہ بیلجین کا پادری اور طبیعیات دان جارج لیمیترے تھا۔ لیمیترے مہارتوں کی قابلیت کا ایک قابل ذکر مجموعہ تھا۔ اس نے اپنی تعلیم بطور انجنیئر کے شروع کی، جنگ عظیم اول میں توپچی بنا، اور اس کے بعد ریاضی کی طرف منتقل ہو گیا جبکہ رہبانیت کا مطالعہ 1920ء کے ابتدائی عشرے میں کیا۔ اس کے بعد اس کی توجہ علم کائنات پر ہو گئی، سب سے پہلے اس نے برطانوی مشہور فلکی طبیعیات دان سر آرتھر ایڈنگٹن کے ساتھ ہارورڈ پر منتقل ہونے سے پہلے تحقیق کی اور بالآخر ایم آئی ٹی سے طبیعیات میں دوسری ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ 

    1927 ء میں، اپنی دوسری ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کرنے سے پہلے، لیمیترے نے اصل میں آئن سٹائن کی عمومی اضافیت کو حل کر لیا تھا اور مظاہرہ کیا کہ نظریہ ایک غیر ساکن کائنات کے بارے میں پیش گوئی کرتا ہے اور اصل میں تجویز دیتا ہے کہ جس کائنات میں ہم رہ ہے ہیں وہ پھیل رہی ہے۔ تصور اتنا دھماکہ خیز تھا کہ آئن سٹائن نے بذات خود دلنشینی سے اس پر اس بیان کے ساتھ اعتراض کیا "تمہاری ریاضی درست ہے، تاہم تمہاری طبیعیات گھناؤنی ہے۔ "

    بہرحال، لیمیترے کو اس کے بعد سے زور مل گیا اور 1930ء میں اس نے مزید تجویز کیا کہ ہماری پھیلتی ہوئی کائنات اصل میں ایک لامتناہی نقطے سے شروع ہوئی تھی، جس کو اس نے "قدیمی جوہر" کا نام دیا، اور یہ شروعات شاید تخلیق کا کنایہ تھا، "ایک دن بغیر گزرے کل کے ساتھ۔ "

    اس طرح سے بگ بینگ جس کی پیش گوئی پوپ پیس نے کی اس کی تجویز پہلی مرتبہ ایک پادری نے کی تھی۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ لیمیترے پادری کی اس تصدیق سے بہت خوش ہو گا، تاہم اس نے پہلے ہی خود سے اپنے دماغ میں اس کو رد کر دیا اس تصور کے ساتھ کہ اس سائنسی نظریئے کے دینیاتی عواقب ہوں گے اور بالآخر اس نے ایک پیراگراف کو اپنے 1913ء کے بگ بینگ کے مقالے سے اس مسئلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے نکال کر دیا۔ 

    حقیقت میں لیمیترے نے پوپ کے تخلیق کے ثبوت کے دعویٰ پر اپنا اعتراض بگ بینگ کے ذریعہ اٹھایا (کم از کم اس لئے نہیں کہ اس نے احساس کر لیا تھا کہ اگر اس کا نظریہ بعد میں غلط ثابت ہوا تب رومن کیتھولک تخلیق کے دعوے کی ہمسری کی جا سکے گی)۔ اس وقت تک، وہ ویٹی کن کی پونٹی فیکل اکیڈمی میں چن لیا گیا تھا اور بعد میں اس کا صدر بھی بن گیا تھا۔ جیسا کہ اس نے لکھا، " جہاں تک میں دیکھ سکتا ہوں، اس طرح کا نظریہ بالکل مابعد طبیعیات یا مذہبی سوال سے مکمل طور پر ماوراء رہے گا۔ "پوپ نے اس موضوع کو پھر کبھی عوام کے سامنے نہیں رکھا۔ 

    یہاں ایک قابل قدر سبق ہے۔ جیسا کہ لیمیترے نے تسلیم کر لیا تھا کہ بگ بینگ چاہئے وقوع پذیر ہوا ہو یا نہ ہو یہ ایک مذہبی نہیں سائنسی سوال ہے۔ مزید براں اگر بگ بینگ وقوع پذیر ہوا تھا (جس کی تمام ثبوت اب غالب طور پر حمایت کرتے ہیں )، کوئی بھی مذہبی یا مابعد طبیعیاتی پیش گوئیوں پر انحصار کرتے ہوئے اس کی مختلف طرح سے تشریح کر سکتا ہے۔ آپ بگ بینگ کو خالق کے تجویز کرنے والے کے طور پر دیکھ سکتے ہیں اگر آپ ضرورت سمجھتے ہیں یا بحث کر سکتے ہیں کہ عمومی اضافیت کی ریاضی کائنات کے ارتقاء کو اس کی شروعات سے کسی بھی خدائی مداخلت کے بیان کرتی ہے۔ تاہم اس طرح کی مابعد طبیعیاتی پیش گوئی بگ بینگ کی بذات خود طبیعیاتی تصدیق سے خود مختارانہ طور پر ہو گی اور ہماری اس کی فہم غیر متعلق ہو گی۔ بلاشبہ طبیعیاتی اصولوں کو سمجھنے کے لئے جو اس کے ماخذ کو مخاطب کریں گے جب ہم صرف پھیلتی ہوئی کائنات کے وجود سے آگے جائیں گے، سائنس اس پیش گوئی پر مزید روشنی ڈال سکتی ہے جیسا کہ میں دلیل دوں گا کہ یہ ایسا ہی کرتی ہے۔ کسی بھی صورت میں نہ تو لیمیترے اور نہ ہی پوپ پئیس سائنسی دنیا کو قائل کر سکتے تھے کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ بلکہ جیسا کہ تمام اچھی سائنس میں ہوتا ہے، ثبوت احتیاط سے کئے گئے مشاہدات سے آتے ہیں، اس صورت میں ثبوت ہبل نے جمع کئے تھے، یہ بات مجھے انسانیت پر یقین رکھنے میں عظیم مدد دیتی ہے کیونکہ اس نے شروعات ایک وکیل کے کی تھی اور پھر ایک فلکیات دان بن گیا۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ایک پراسرار کائناتی کہانی: آغاز - حصّہ دوم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top