Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    منگل، 27 ستمبر، 2016

    سرخ منتقلی کا حاوی ہونا -حصّہ دوم



    ملٹن ہماسن 1891ء میں، ڈاج سینٹر، مینیسوٹا میں پیدا ہوا۔ جب وہ چودہ برس کا تھا تو اس کو موسم گرما میں ہونے والی پڑھائی کے دوران ماؤنٹ ولسن بھیجا گیا، اور اس نے وہاں اتنا مزہ کیا کہ چند دنوں کے اندر واپس کالج جا کر اپنے والدین کو قائل کیا کہ اس کو اسکول سے ایک برس کی رخصت دلوا دیں تاکہ وہ واپس پہاڑوں پر جا سکے۔ اس کے بعد وہ کبھی رسمی تعلیم کی طرف نہیں پلٹا تاہم مختلف گھن چکر راستوں سے ہوتا ہوا وہ اپنی نسل کا ایک نمایاں ترین مشاہداتی فلکیات دان بنا۔ تعلیم کو چھوڑنے کے کے بعد وہ کچھ عرصے کے لئے خچر گاڑی چلانے والا بن گیا جو پہاڑوں کی چوٹی پر جانے والے راستوں کی رہنمائی کرتے اسی دوران ماؤنٹ ولسن رصدگاہ بن رہی تھی۔ وہ پہاڑ اور رصدگاہ دونوں سے سحر انگیز تھا تاہم اس دوران اس کو اتنا وقت بھی مل گیا کہ رصدگاہ کے انجنیئر کی بیٹی سے عشق لڑا کر اس سے 1911ء میں شادی کر سکے۔ ایک شادی شدہ شخص کے طور پر اپنی نئی ذمہ داری کے ساتھ ہماسن نے خچر گیری چھوڑ کر ایک مویشی خانے میں کام کرنے کی کوشش کی جو لا ورن میں اس کے ایک عزیز کا تھا۔ تاہم جب 1917ء میں ماؤنٹ ولسن رصدگاہ میں خلاصی کی نوکری خالی ہوئی تو ہماسن کے سسر نے اس کو وہاں درخواست دینے کا کہا اور اس امید کا اظہار کیا کہ ایک پہاڑوں اور رصدگاہوں سے پیار کرتے ہوئے ابھرتے ہوئے نوجوان آدمی کے لئے غالباً زندگی کے عظیم مقصد کو حاصل کرنے کا یہ پہلا قدم ہو۔ وہ بمشکل ہی تصور کر سکتا تھا بہرحال ایک 26 برس کے خلاصی کے اس قدم کی اہمیت جو یہاں 1917ء میں اہلکاروں میں شامل ہوا اگلے کچھ عشروں تک رہی۔ 

    خلاصی سے جلد ہی ہماسن کی ترقی بطور رات کے مددگار کی ہو گئی، جس کا کم دوربین کی دیکھ بھال کرنا اور مشاہداتی فلکیات دانوں کو ان کے کاموں میں ہاتھ بٹانا تھا؛ کوئی بھی رات کا مددگار لائق ہوتا جلد ہی اس کو اپنے مشاہدے کے لئے کچھ تھوڑا بہت وقت مل جاتا، اور ہماسن نے دوربین کے ساتھ اس قدر مہارت دکھائی کہ 1919ء میں اس کی تقرری بطور نائب فلکیات دان کے ہو گئی اور وہ رصدگاہ کے اکیڈمک اہلکاروں کے اراکین میں بطور جونیئر رکن بن گیا۔ ہیل کو اس تقرری کے لئے کافی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا - کچھ بھی ہو ہماسن ایک خچر بان اور خلاصی تھا اور چودہ برس کی عمر سے اس نے کوئی رسمی تعلیم بھی حاصل نہیں کی تھی، اور انجنیئر کی بیٹی سے شادی بھی ان لوگوں کی آنکھوں میں اس کے خلاف ہی گئی جو اس کی ترقی کو مشکوک اور غلط راہ سے حاصل کرنا سمجھتے تھے۔ تاہم ہیل مردم شناس تھا اور اپنے فیصلے پر اڑ گیا۔ 1954ء تک ہماسن ماتحت فلکیات دان کے عہدے پر رہا جب وہ پورا فلکیات دان ماؤنٹ ولسن اور پلومر رصدگاہوں میں بن گیا؛ 1947ء سے وہ رصدگاہ کا معتمد رہا جس کی ذمہ داری میں عوامی تعلقات اور مختلف تنظیمی فرض شامل تھے۔ اس نے اعزازی سندیں حاصل کیں تاہم وہ عام طور پر حاصل کرنے والی نہیں تھیں ، اور وہ اپنی اکیاسی یوم پیدائش کے چند دن تک 1972ء میں زندہ رہا۔ اس کی انتہائی احتیاط کے ساتھ نازک آلات کو سنبھالنے کا معاملہ اور دوربین کے ساتھ اس کی مہارت کی وجہ سے وہ بنیادی اعداد و شمار حاصل کر سکا جن کے ساتھ ماہرین تکوینیات اس قابل ہوئے کہ اپنا پہلا مفصل کائنات کا تصوراتی نمونہ بنا سکیں، اور بگ بینگ کے نظریے تک جا سکیں۔ اور یہ تمام چیزیں 1928ء میں شروع ہوئیں جب ہبل نے پہلی مرتبہ ہماسن کو مدھم اور دور دراز کی کہکشاؤں کی سرخ منتقلی کو ناپنے کے کام پر لگایا۔ 


    خاکہ 4.1 بی 1931ء تک ہبل کے قیاس اور سائنس کے امتزاج سے کیا جانے والے جرات مند کام کی صحت کی تصدیق ہو چکی تھی۔ ہبل اور ہماسن نے سرخ منتقلی کی تحقیق کو جس قدر کر سکتے تھے کیا اس طرح سے صرف دو برس کے بعد ہی خاکہ 4.1 اے کے اعداد و شمار اس پلاٹ کے الٹے ہاتھ کی طرف کے نچلے کونے کے ڈبے کے اندر گر گئے۔ تاہم سیدھی لکیر اب بھی موجود تھی اور زیادہ قابل بھروسہ لگ رہی تھی۔ 


    ان مشاہدات کے لئے نئے آلات، نئی عکسی تیکنیک اور صبر اور مہارت کے منفرد امتزاج کی ضرورت تھی جس کی بدولت ہماسن گھنٹوں دوربین کے آگے گزارتا، جو کئی راتوں پر مشتمل ہوتے اس دوران وہ ان کی درست رہنمائی کرتا تاکہ وہ ایک ننھی سے صرف آدھ انچ کی عکسی تختی پر دور دراز کی کہکشاں کے طیف کو حاصل کر سکے۔ 1935ء تک اس نے سلائیفر کی فہرست میں 150 سرخ منتقلیوں کو شامل کر دیا جس میں سرخ منتقلی کے دور ہونے کی سمتی رفتار 40,000 کلومیٹر فی سیکنڈ - روشنی کی رفتار کے ایک بٹا آٹھ حصّے سے بھی زیادہ کو ناپا۔ 200 انچ دوربین کی آمد کے ساتھ اس نے اپنی تلاش کو اور گہری خلاء میں وسعت دے دی اور 1950ء کے عشرے کے آخر تک درج ہونے والی رفتار 100,000 کلومیٹر فی سیکنڈ سے بھی زیادہ تھی، روشنی کی رفتار کا ایک تہائی حصّہ، جو کئی ارب برسوں کے فاصلے سے مطابقت رکھتا تھا۔ 1920ء کے اختتام کے بعد سے یہ تیزی سے واضح ہونے لگا تھا کہ کائنات واقعی میں ایک بہت بڑی جگہ ہے، اور کہکشائیں اور جھرمٹ اس کی بنیادی اینٹیں ہیں اور سرخ منتقلی کا ہی زور چلتا ہے۔ کائنات بے قابو ہو کر پھیل رہی تھی۔ 

    تو اس ساری رام کہانی کا کیا مطلب ہوا ؟ اب نظری لوگوں کو کچھ عرصے کے لئے مرکز نگاہ بننے کی باری کے لئے یہ پہلا قدم تھا، جس میں وہ ڈرتے ڈرتے اس بات کا اعتراف کرتے کہ وہ آپ کو یہ بتا سکتے ہیں کہ کائنات اس طرح کی تھی، بشرطیکہ ان میں اپنے نظریات پر کافی ایمان ہوتا کہ وہ گذشتہ چند عشروں سے کیا بتا رہے ہیں۔ یہی وہ کہانی ہے جو اس وقت شناسا بن جائے گی جب ہم بگ بینگ کی تلاش کے پیچھے جائیں گے۔ اکثر جو سمجھا جاتا ہے اس کے برعکس نظری - بلاشبہ کونیاتی نظری - ایسا لگتا ہے کہ ان کو اپنے نظریوں پر کچھ زیادہ یقین نہیں تھا۔ وہ اس پر کوئی بڑی شرط لگانے کو تیار نہیں ہوتے، تاہم اس کو وہ سائنسی جریدوں تک ضرور لے جاتے ہیں جہاں اکثر برسوں تک وہ نظروں میں آنے کے منتظر رہتے ہیں۔ 1930ء سے 1980ء کے عشروں تک نظری متواتر نئی مشاہداتی دریافتوں سے حیران ہوتے رہے جو کسی کی دس یا بیس برس پہلے بد دلی سے کی گئی یا نظر انداز کی گئی پیش گوئی کے عین مطابق تھیں۔ اور ان بد دل نظری ماہر تکوینیات میں سے پہلا کون تھا جو اپنے ہی نظریئے کی بتائی ہوئی بات پر یقین نہیں کر رہا تھا؟ یہ کوئی اور نہیں بلکہ البرٹ آئن سٹائن تھا۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: سرخ منتقلی کا حاوی ہونا -حصّہ دوم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top