Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 28 ستمبر، 2016

    آئن سٹائن



    آئن سٹائن لگ بھگ ایک دیومالائی شخصیت بن گیا ہے، ہماری زمانے کے دور کا دیومالائی کردار۔ وہ ایک اصلی جوہر قابل تھا، سفید بال، تھوڑا سا سنکی تاہم ملنسار بوڑھا آدمی جس نے مشکل سوالات کے دلوں کو بچوں کی معصومیت کے ساتھ ان سامنے موجود سوالات کو اٹھا کر چیر ڈالا تھا جس کو کسی نے بھی نہیں پوچھا تھا۔ اس کا زیادہ تر حصّہ سچ ہے بعینہ ایسے کہ جیسے یہ سچ ہے کہ اسے اسکول میں کچھ زیادہ خاص نہیں سمجھا جاتا تھا، اس نے درسی دنیا میں بطور طالبعلم کوئی خاص تاثر نہیں چھوڑا تھا، اور اس کو ایک پیٹنٹ دفتر میں اس صدی کے ابتدائی برسوں میں بطور تیکنیکی ماہر کے کام کرنا پڑا جہاں اس نے طبیعیات میں تین اہم نئے نظریات اپنے فارغ وقت میں بنائے۔ تاہم ایک طرح سے دقیانوسی تصویر ہمیں اس آدمی کے بارے میں سچ نہیں بتاتی جس نے سائنس کے انقلاب میں اپنا حصّہ شامل کیا۔ 1900ء کی دہائی کی ابتداء میں آئن سٹائن کے سفید بال نہیں تھے نہ ہی وہ کوئی خلیق بوڑھا تھا جو نفیس لباس کے بجائے سہل پسند لباس پہنتا تھا اور اکثر ہفتوں تک جرابیں بھی بدلنے کی زحمت نہیں کرتا تھا۔ اس دور کی تصویر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گہرے بالوں والا وجیہ نوجوان آدمی تھا جو روایتی خوش لباس پہنتا تھا۔ یہ بات اہم ہے کہ آئن سٹائن کے عظیم تر خیالات اس کے جوانی کے خیال تھے۔ انہوں نے نئی معلومات فراہم کی، پہلے سے قائم شدہ تصورات کا تختہ الٹ دیا اور حقیقت میں انقلابی تھے۔ وہ سرگرمی جس نے آئن سٹائن کو سائنسی سماج کی توجہ دلوائی تھی وہ 1905ء میں ہی مکمل ہو گئی تھی، جب وہ صرف چھبیس برس کا تھا، اس کی عظیم الشان کامیابی، عمومی نظریہ اضافیت اس کے صرف دس برس بعد شایع ہوئی۔ ہرچند کہ وہ 1955ء تک زندہ رہا جب وہ ملنسار بوڑھا پروفیسر بن گیا تھا تاہم اس کا عظیم ترین کام اس پہلی جنگ عظیم کے اختتام سے پہلے ہی تک کا رہا۔ سائنس خاص طور پر ریاضی کی سائنس اسی طرح کی ہوتی ہے۔ صرف نوجوان دماغ ہی آگے بڑھ کر نئے تصور لاتے - دریافت کر کے ان کو اپنے گلے لگاتے - ہیں اور اگر نئے تصورات پرانے تصورات سے ڈرامائی طور پر الگ ہوتے ہیں جیسا کہ آئن سٹائن نے بنائے تھے، تو یہ آپ کی باقی ماندہ زندگی یا کئی زندگیاں ان کے مضمرات پر کام کرتے ہوئے لے لیتے ہیں۔ 

    آئن سٹائن نے 1900ء میں سوئس فیڈرل پولی ٹیکنیک سے بغیر کسی امتیاز کے سند حاصل کی۔ اس وقت تک اس کی درسی تعلیم رنگ برنگی ہو چکی تھی - اس نے تین برس کی عمر تک بولنا نہیں شروع کیا تھا، ہرچند کہ اس کے اسکول سے اس کی کارکردگی کی کچھ اچھی اطلاعات تھیں اور کچھ بری تاہم پندرہ برس کی عمر میں اس کو اسکول (میونخ جمنازیم) سے یہ کہہ کر نکال دیا گیا تھا کہ وہ 'موجب تفریق' ہے۔ اسکول سے نکلے جانے کی منصوبہ بندی خود آئن سٹائن نے کی تھی - اس کے والدین پہلے ہی کاروبار کی ناکامی کے بعد جرمنی چھوڑ کر اٹلی میں رہ رہے تھے اور نوجوان البرٹ کو جرمن سماج کی لڑاکا فطرت سے اس قدر کراہیت تھی کہ اس نے اس وقت اپنی شہریت ترک کر دی اور جرمن رہنے کے بجائے پردیسی بن گیا۔ میلان میں اپنے خاندان کے ساتھ ایک برس کی آزادی خوشی سے گزارنے کے بعد 1895ء میں آئن سٹائن نے زیورخ پولی ٹیکنیک میں داخلے کے لئے درخواست دی - اور داخلے کے امتحان میں ناکام ہوا۔ تاہم آراو میں ایک برس سوئس اسکول میں داخلے کے بعد اس نے محفوظ طریقے سے اس باڑ کو پار کیا اور ساڑھے سترہ برس کی عمر میں 1896ء کے موسم خزاں میں پولی میں داخل ہوا۔ 

    آراو کے دوران اسی برس آئن سٹائن نے ان سوالات پر سوچنا شروع کر دیا جنہوں نے دس برس کے بعد اس کو خصوصی نظریہ اضافیت تک پہنچایا۔ البرٹ نے یہ سوچا کہ اس وقت روشنی کی موج کیسی لگی گی جب آپ اس اس رفتار سے سفر کریں کہ اس کو پکڑ سکیں۔ یہاں حقیقت میں اس نے معصومانہ اور بچوں والی سوچ کے ساتھ کائنات کو دیکھا جس نے اس کا طرہ امتیاز بنانا تھا۔ کیا یہ ایک مضحکہ خیز سوال نہیں ہے ؟ ایک تین برس کے بچے کی طرح جو پوچھے، 'گھاس ہری کیوں ہوتی ہے؟' لیکن ذرا رکئے یہ سوال اس سے کہیں زیادہ کے جواب کا مستحق ہے جو اسے سرسری سے دیکھنے میں لگتا ہے۔ 

    یہ اس سے کہیں زیادہ اکتاہٹ والا تھا جن سے آئن سٹائن نے پولی میں امتحانات سے پیچھا چھڑایا تھا - وہ ان چیزوں کا مطالعہ نہیں کرتا تھا جس میں اس کی کوئی دلچسپی نہ ہو۔ بطور طالبعلم اس کی مغروریت معلمین کو پریشان کر دیتی تھی، ان میں سے ایک ہینرچ ویبر تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے چلا کر کہا تھا 'تم ایک چالاک لڑکے ہو! تاہم تم میں ایک مسئلہ ہے۔ تم کسی کو بھی کوئی ایک چیز بتانے نہیں دیتے۔ تم کسی کو بھی کوئی ایک چیز بتانے نہیں دیتے۔ اور اس اجنبیت سے ان لوگوں کو بہت بری طرح گزرنا پڑتا تھا جو اس کی مدد کر سکتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ آئن سٹائن کو کوئی درسی نشت نہیں مل سکی، اور اس کو نجی طور پر اس وقت تک پڑھانا پڑا جب تک 1902ء میں اس کو مشہور زمانہ ملازمت برن میں واقع پیٹنٹ کے دفتر میں نہیں مل گئی اور وہ سوئس شہری نہیں بن گیا۔ یہ ایک سیدھی نوکری تھی، جو اسے آسان لگی اور اس نے اس کو حفاظت کے ساتھ اتنا وقت فراہم کیا کہ وہ تیز رفتار روشنی کی موج کی ماہیت کے بارے میں سوچ سکے۔ تاہم کوئی بھی اس خیال کے بارے میں نہیں سوچ سکتا تھا جو اس ایک عام سے گرم گھر سے تین برس کے اندر نکلنا تھا۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: آئن سٹائن Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top